بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں آیت سجدہ تلاوت کرکے تاخیر سے سجدہ ادا کرنا


سوال

 اگر دورانِ  نماز میں آیتِ  سجدہ پڑھ لی تو سجدہ اسی دوران کرنا ہے یا بعد میں بھی کر سکتے ہیں؟

جواب

نماز میں آیتِ سجدہ تلاوت کرنے کےفوراً بعد  سجدہ واجب ہوجاتا ہے، اور اسی وقت سجدہ کرنا چاہیے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ ’’اللّٰه أكبر‘‘  کہہ کر  سجدے میں چلا جائے، اور سجدہ  میں کم از کم تین مرتبہ سجدے کی تسبیحات پڑھ کر دوبارہ قیام میں آجائے، اور باقی نماز مکمل کرلے۔

اگر نماز میں  آیتِ سجدہ تلاوت کرنے کے بعد  تین آیات سے پہلے  رکوع کرلیا تو  رکوع میں سجدہ تلاوت کی نیت کرنے سے سجدہ تلاوت ادا ہوجائے گا، اور اگر آیتِ سجدہ تلاوت کرنے کے بعد آگے  تین آیات  پڑھنے سے پہلے رکوع کیا  اور اس میں نیت نہیں کی تو اس کے بعد نماز کے سجدہ سے بھی سجدہ تلاوت ادا ہوجائے گا۔

اور اگر نماز میں  آیتِ سجدہ تلات کرنے کے بعد  آگے مزید تین آیات پڑھ لیں اور سجدہ نہیں کیا تو یہ سجدہ قضا شمار ہوگا، یعنی نماز کے اندر ہی سجدہ تلاوت بھی کرنا لازم ہوگا، اور  تاخیر کی وجہ سے سجدہ سہو بھی لازم ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 109، 110، 111):

"(وهي على التراخي) على المختار ويكره تأخيرها تنزيهاً، ويكفيه أن يسجد عدد ما عليه بلا تعيين ويكون مؤدياً وتسقط بالحيض والردة (إن لم تكن صلويةً) فعلى الفور لصيرورتها جزءاً منها ويأثم بتأخيرها ويقضيها ما دام في حرمة الصلاة ولو بعد السلام، فتح  ... (ولو تلاها في الصلاة سجدها فيها لا خارجها)، لما مر. وفي البدائع: وإذا لم يسجد أثم فتلزمه التوبة ... (وتؤدى بركوع وسجود) غير ركوع الصلاة وسجودها (في الصلاة وكذا في خارجها ينوب عنها الركوع) في ظاهر المروي، بزازية (لها) أي للتلاوة (و) تؤدى (بركوع صلاة) إذا كان الركوع (على الفور من قراءة آية) أو آيتين وكذا الثلاث على الظاهر، كما في البحر (إن نواه) أي كون الركوع (لسجود) التلاوة على الراجح (و) تؤدى (بسجودها كذلك) أي على الفور (وإن لم ينو) بالإجماع، ولو نواها في ركوعه ولم ينوها المؤتم لم تجزه ويسجد إذا سلم الإمام ويعيد القعدة.

(قوله: على الفور إلخ) فلو انقطع الفور لا بد لها من سجود خاص بها ما دام في حرمة الصلاة، وعلله في البدائع بأنها صارت ديناً والدين يقضى بما له لا بما عليه والركوع والسجود عليه فلا يتأدى به الدين. اهـ.
(قوله: على الظاهر كما في البحر) أي عن البدائع والمتبادر من عبارته أنه استظهار من صاحب البدائع، لا أنه ظاهر الرواية، وفي الإمداد: الاحتياط قول شيخ الإسلام خواهر زاده بانقطاع الفور بالثلاث. وقال شمس الأئمة الحلواني: لاينقطع ما لم يقرأ أكثر من ثلاث، وقال الكمال بن الهمام: قول الحلواني هو الرواية. اهـ."

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200723

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں