بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز کے سجدہ میں شوہر کا خیال آنے سے نکاح کا حکم


سوال

میرا کچھ ماہ پہلے ہی مسنون نکاح ہوا ہے مگر ابھی رخصتی نہیں ہوئی،  اکثر لاشعوری طور پر نماز میں سجدہ کے وقت مجھے میرے شوہر کا خیال آجاتا ہے ، یعنی میری آنکھوں کے آگے ان کا تصور ہوتا ہے جسے میں فوراً جھٹکنے کی کوشش بھی کرتی ہوں ،  کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ میرے لاشعور میں خیال آجاتا ہے کہ شوہر کا تو بہت مرتبہ ہے اور اس طرح میرے شعور کا ایک حصہ اس تصور کو ناپسند کرتے ہوئے خوفزدہ ہوتا ہے کہ اللہ پاک کی ناراضی نہ ہو جائے مجھ سے خدانخواستہ اور ایک حصہ شوہر کو سوچتا رہتا ہے ،  میں نماز کی پابند ہوں الحمدللہ اور توبہ استغفار بھی کرتی رہتی ہوں اگر کوئی شیطانی وسوسہ آئے تو دھیان فوراًجھٹکتی ہوں۔ مجھے یہ پوچھنا ہے کہ کہیں خدانخواستہ مجھے تجدید نکاح کی ضرورت تو نہیں ؟ میں سخت پریشان ہوں ۔

جواب

انسان کے دل ودماغ میں جو وساوس  وخیالات غیر اختیاری طور پر آجائیں  اور وہ ان سے توجہ ہٹانے کی کوشش  بھی کرتا رہے تو ایسے وساوس اور خیالات پر  اللہ  کی طرف سے مؤاخذہ نہیں ہوگا اور نہ ہی  کوئی حکم لگے گا، بلکہ ایک حدیث کے مفہوم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ غیر اختیاری وسوسہ آنا اور  اسے برا سمجھنا ایمان کی علامت ہے،  جیساکہ حدیثِ مبارک میں آتا ہے کہ :

   " حضرت ابوہریرہ   رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے کچھ لوگ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ:  ہم اپنے دلوں میں کچھ خیالات ایسے پاتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی ان کو بیان نہیں کر سکتا، آپ ﷺ نے فرمایا کیا واقعی تم اسی طرح پاتے ہو؟ (یعنی گناہ سمجھتے ہو) صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا جی ہاں! آپ ﷺ نے فرمایا یہ تو واضح ایمان ہے۔“  

اس حدیث کی شرح میں ملا علی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

” صحابہ کے اس جملہ  "ہم اپنے دلوں میں کچھ خیالات ایسے پاتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی ان کو بیان نہیں کر سکتا"  کا مطلب یہ ہے کہ : ہم اپنے دلوں میں بری چیزیں پاتے ہیں، مثلاً:  اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ اور وہ کیسا ہے؟ اور کس چیز سے ہے؟ اور اس طرح کی اور چیزیں کہ جن کا بیان کرنا بھی مشکل ہے، اس لیے کہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ قبیح باتیں ہیں اور ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے کہ ہم اس پر اعتقاد رکھیں، بلکہ ہم جانتے ہیں اللہ قدیم ہے ازل سے ہے،ہر چیز کا خالق ہے، مخلوق نہیں ہے، تو ایسے خیالات جو ہمارے دل میں آتے ہیں ان کا کیا حکم ہے؟ تو آپ ﷺ نے یہ جواب دیا کہ یہ تو صریح ایمان ہے، اس لیے تم اس وساوس کو دل میں پانے کے بعد جھڑک دیتے ہو، اور اس کو برا سمجھتے ہو،تو یہ تمہارے ایمان کی علامت ہے۔“

لہذا   صورتِ مسئولہ میں نماز کے سجدہ میں  جو  غیر اختیاری طور پر آپ کو  شوہر کا تصور آجاتا ہے   اور  پھر  آپ اس سے  توجہ  اور  دہیان ہٹانے کی کوشش  بھی کرتی رہتی ہیں   پھر بھی نہیں جاتی  تو   اس غیراختیاری وساوس کی وجہ سے آپ گناہ گار نہیں ہوں گی اور تجدید نکاح کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔

صحيح مسلم  میں ہے :

" عن أبي هريرة، قال: جاء ناس من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، فسألوه: إنا نجد في أنفسنا ما يتعاظم أحدنا أن يتكلم به، قال: «وقد وجدتموه؟» قالوا: نعم، قال: «ذاك صريح الإيمان» ."

(1 / 119،  باب بيان الوسوسة في الإيمان، ط: دار أحیاء التراث العربی)

مرقاة المفاتيح میں ہے:

"( «في أنفسنا ما يتعاظم أحدنا أن يتكلم به» ) أي: نجد في قلوبنا أشياء قبيحة نحو: من خلق الله؟ وكيف هو؟ ومن أي شيء؟ وما أشبه ذلك مما يتعاظم النطق به لعلمنا أنه قبيح لايليق شيء منها أن نعتقده، ونعلم أنه قديم، خالق الأشياء، غير مخلوق، فما حكم جريان ذلك في خواطرنا؟ ... (صريح الإيمان) أي: خالصه يعني أنه أمارته الدالة صريحاً على رسوخه في قلوبكم، وخلوصها من التشبيه، والتعطيل؛ لأن الكافر يصر على ما في قلبه من تشبيه الله سبحانه بالمخلوقات، ويعتقده حسنا، ومن استقبحها، وتعاظمها لعلمه بقبحها، وأنها لاتليق به تعالى كان مؤمناً حقاً، وموقناً صدقاً فلا تزعزعه شبهة، وإن قويت، ولا تحل عقد قلبه ريبة، وإن موهت، ولأن من كان إيمانه مشوباً يقبل الوسوسة، ولايردها".

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، 1/ 136، باب في الوسوسة، ط: دار الفكر، بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411100128

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں