بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نفع کی غرض سے سونا لے کر رکھنا اور سونے کی خرید وفروخت کا ایک معاملہ


سوال

 سونے کی خرید و فروخت اس نیت سے کہ مہنگا ہو جانے پہ بیچ دوں گا یا پھر اس نیت سے کہ ابھی جو پیسے پڑے ہیں اس کی ویلیو قائم رہے، جائز ہے؟

دوسرے یہ کہ سونے کی سالڈ بارز  کی مارکیٹ میں مروجہ خرید و فروخت کا کیا حکم ہے جب کہ

1: خریدتے وقت آپ آج کی قیمت پر پیسے دے کر اتنا سونا لے سکتے ہیں، یا پھر آپ اپنی رقم تاجر کے حوالے کر کے 15 سے 60 دنوں کا وقت دیتے ہیں۔ ان دنوں میں جو ریٹ کم سے کم ہے اس حساب سے آپ کو سونا ملے گا۔

2: یہی صورت بیچنے پہ ہے۔ آپ اسی دن کی قیمت بھی لے سکتے ہیں یا پھر سونا حوالے کر کے 15 سے 60 دنوں کا زیادہ سے زیادہ ریٹ لے سکتے ہیں۔

کیا کاروبار کی یہ صورت جائز ہے؟

جواب

۱۔ صورتِ  مسئولہ میں سونا  اس نیت سے خرید کر رکھنا کہ مہنگا ہونے کی صورت میں نفع ہو  یا پیسے کی ویلیو قائم رہے، یہ جائز ہے، البتہ روپے (کرنسی نوٹ) کے بدلے  سونا یا چاندی کی خریدو فروخت  کے وقت نقد معاملہ  کرنا شرعاً ضروری ہے،  ادھار کا معاملہ  کرنا ( خواہ کل رقم ادھار ہو یا بعض رقم ادھار  ہو ) شرعاً جائز نہیں ہے، اس لیے کہ کرنسی نوٹ ثمنِ اصطلاحی ہے، لہذا  جس طرح سونا چاندی کی خریدوفروخت میں ادھار ناجائز ہے، اسی طرح  روپے کے بدلے سونا چاندی کی خریدوفروخت میں  بھی ادھار کا معاملہ شرعاً جائز نہیں ہے، بلکہ ضروری ہے کہ سودا نقد کیا جائے اور مجلس عقد میں ہی ہاتھ کے ہاتھ ہی جانبین سے عوضین پر قبضہ بھی ہوجائے، ورنہ بیع فاسد ہوجائے گی۔

۲۔۔  اس میں پہلی صورت کہ خریدتے وقت نقد رقم دے کر آج کی قیمت کے حساب سے ہاتھ در ہاتھ سونا خرید لیا جائے یہ جائز ہے۔

اور دوسری صورت میں اگر  یوں معاملہ کیا جائے کہ  15 سے 60 دنوں کے وقت  میں  جو ریٹ کم سے کم ہو اس حساب سے آپ سونا لیں گے یا جو زیادہ سے زیادہ قیمت ہو اس پر سونا فروخت کریں گے تو  فی الوقت یہ سودا جائز نہیں ہے، اس لیے کہ اس مبیع (خریدی جانے والی چیز) کی قیمت عقد  کے وقت متعین نہیں ہے، نیز معاملہ بھی ادھار کا ہورہا ہے۔ البتہ اگر  دکان دار کے پاس آپ امانت کے طور پر پیسہ رکھوادیں  یا پیسے اپنے پاس ہی رکھیں اور دکان دار سے کہہ کر رکھیں کہ جب مارکیٹ میں اچھی قیمت ہو تو وہ آپ کو بتادے  تو اس صورت میں اسی دن کی قیمت کے مطابق نقد معاملہ کرلیا جائے تو یہ جائز ہوگا۔

        فتاوی شامی میں ہے:

"(ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزنا (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق) وهو شرط بقائه صحيحًا على الصحيح (إن اتحد جنسًا وإن) وصلية (اختلفا جودةً وصياغةً) لما مر في الربا". (5/257، 258، باب الصرف، کتاب البیوع، ط: سعید)          

فتح القدیر  میں ہے:

"(ولا بد من قبض العوضين قبل الافتراق) لما روينا، ولقول عمر -رضي الله عنه-: وإن استنظرك أن يدخل بيته فلاتنظره، ولأنه لا بد من قبض أحدهما ليخرج العقد عن الكالئ بالكالئ ثم لا بد من قبض الآخر تحقيقًا للمساواة فلايتحقق الربا، ولأن أحدهما ليس بأولى من الآخر فوجب قبضهما سواء (قوله: ولا بد من قبض العوضين قبل الافتراق) بإجماع الفقهاء. وفي فوائد القدوري: المراد بالقبض هنا القبض بالبراجم لا بالتخلية يريد باليد، وذكرنا آنفا أن المختار أن هذا القبض شرط البقاء على الصحة لا شرط ابتداء الصحة لظاهر قوله: فإذا افترقا بطل العقد، وإنما يبطل بعد وجوده وهو الأصح. وثمرة الخلاف فيما إذا ظهر الفساد فيما هو صرف يفسد فيما ليس صرفًا عند أبي حنيفة - رحمه الله -، ولايفسد على القول الأصح". (6/260، باب الصرف، ط: رشیدیة)  فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144112200474

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں