بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 ذو القعدة 1446ھ 16 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

نافرمان بیوی کی اصلاح کے شرعی درجات اور علیحدگی کا مسنون طریقہ


سوال

میری بہو ایک ایسی عورت کی بیٹی ہے، جس نے زبردستی اپنی بیٹی میرے بیٹے کے نکاح میں دی تھی۔ جب شادی ہوئی تو اس کا رویہ ہمارے ساتھ اچھا نہیں تھا، اور بہت سے گھریلو مسائل پیدا ہوئے۔ بعد میں انہوں نے خلع لے لی ، اور کسی اور سے نکاح کر لیا۔ لیکن وہ نکاح بھی کامیاب نہ ہو سکا۔

پھر اس عورت نے دوبارہ میرے بیٹے سے رابطہ کیا، اور اسے اپنے ساتھ رہنے پر آمادہ کر کے دوبارہ نکاح کر لیا۔ مگر اب بھی وہ ہمارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کر رہی۔ وہ ہمارے بیٹے سے ایک بیٹی کی ماں ہے، اور وہ بیٹی بھی اس کے پاس ہے۔ یہ عورت شوہر اور ہمارے بغیر اجازت  چلی جاتی ہے۔اب ہم چاہتے ہیں کہ ہم اسے آزاد کر دیں۔ اگر وہ ہم سے خلع کا مطالبہ کرے تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں، اور ہم اس کا حق مہر قسطوں میں ادا کر دیں گے۔

کیا ہمارا یہ اقدام شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

جواب

ازدواجی زندگی کو پُرسکون، خوش گوار اور دیرپا بنانے کے لیے شریعتِ مطہرہ نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ میاں بیوی کا ایک دوسرے کے مقام و مرتبہ کو سمجھنا، ادب و احترام سے پیش آنا اور محبت و ہمدردی کے ساتھ زندگی گزارنا ہی اصل کامیاب ازدواجی زندگی کی بنیاد ہے۔بیوی پر  شوہر کی اطاعت کرنا لازم ہے، اس کے مقام کو سمجھے، اس کی دل آزاری سے بچے، طعن و تشنیع، ملامت اور گھر سے بلا اجازت نکلنے جیسے امور سے مکمل پرہیز کرے۔ رسول اکرم ﷺ نے شوہر کے مقام کو اس حد تک بیان فرمایا کہ:"اگر میں کسی کو کسی کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا، تو بیوی کو کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔"(سنن ابی داؤد)شوہر پر بھی لازم ہے کہ وہ بیوی کے حقوق ادا کرے، اس کے ساتھ شفقت، عدل و محبت سے پیش آئے، اور اس کی ضروریات کا خیال رکھے۔

تاہم اگر بیوی نافرمان، بد زبان اور خاندان کے لیے باعثِ اذیت ہو، تو قرآن کریم نے اس کی اصلاح کے لیے سورہ نساء (آیت 34) میں تین تدریجی مراحل ذکر فرمائے ہیں:

➊ نصیحت: سب سے پہلے نرمی اور حکمت سے بیوی کو اس کی غلطی پر متنبہ کیا جائے، اور اصلاح کی کوشش کی جائے۔

➋ بستر جدا کرنا: اگر نصیحت کارگر نہ ہو تو شوہر بستر الگ کر دے تاکہ عورت کو شوہر کی ناراضی کا احساس ہو۔ اس علیحدگی میں کمرے یا گھر کو چھوڑنے کی اجازت نہیں، بلکہ صرف بستر کی علیحدگی مراد ہے۔

➌ ہلکی مار کی اجازت: اگر مذکورہ دونوں طریقے کارآمد نہ ہوں، تو تیسرے مرحلے میں ہلکی مار کی اجازت ہے، بشرطیکہ جسم پر نشان نہ پڑے، ہڈی نہ ٹوٹے اور چہرے پر ہرگز نہ مارا جائے۔ بخاری شریف کی روایت ہے:

اگر ان تینوں اصلاحی تدابیر کے بعد بھی بیوی کا رویہ درست نہ ہو، تو چوتھا مرحلہ یہ ہے کہ خاندان کے سمجھ دار بزرگوں کو بیچ میں لایا جائے، تاکہ اُن کی نصیحت سے اصلاح کی کوئی صورت نکل سکے۔لیکن اگر مسلسل کوششوں کے باوجود بیوی باز نہ آئے، شوہر و سسرال کی عزت کا خیال نہ کرے، اور ازدواجی زندگی بوجھ بن جائے تو شریعت نے مرد کو طلاق کا حق دیا ہے۔ اس صورت میں اگر بیوی خود خلع کا مطالبہ کرے تو شوہر اس پر رضامند ہو سکتا ہے، اور مہر قسطوں میں ادا کر کے علیحدگی کا معاملہ طے کیا جا سکتا ہے۔

لیکن اگر طلاق دینا چاہے،تو طلاق دینے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ عورت کو اس طُہر (پاکی) میں صرف ایک طلاق دی جائےجس میں جماع نہ کیا ہو، اور عدت میں رجوع نہ کیا جائے، تاکہ عدت کے بعد نکاح خود بخود ختم ہو جائے۔

لہٰذا اگر بیوی اپنے سابقہ رویے پر قائم ہے، خاندانی ماحول کو تباہ کر رہی ہے، اور اصلاح کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی، تو شوہر کے لیے طلاق یا مہر کی معافی کے عوض خلع کا اقدام شرعاً درست ہے۔

مشکاۃ المصابیح  میں ہے:

"و عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لو كنت آمرًا أحدًا أن يسجد لأحدٍ لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها». رواه الترمذي."

( كتاب النكاح، باب عشرة النساء، ج: 2، ص: 792، ط؛ المكتب الإسلامي) 

ترجمہ:” حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”(بالفرض) اگر میں کسی کو کسی کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی سے کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔“

أحكام القرآن للجصاص  میں ہے:

"{واللاتي تخافون نشوزهن فعظوهن ‌واهجروهن ‌في ‌المضاجع واضربوهن فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا} [النساء: 34] يدل على أن عليها طاعته في نفسها وترك النشوز عليه.

وقد روي في حق الزوج على المرأة وحق المرأة عليه عن النبي صلى الله عليه وسلم أخبار بعضها مواطئ لما دل عليه الكتاب وبعضها زائد عليه، من ذلك ما حدثنا محمد بن بكر البصري قال: حدثنا أبو داود قال: حدثنا عبد الله بن محمد النفيلي وغيره قال: حدثنا حاتم بن إسماعيل قال: حدثنا جعفر بن محمد عن أبيه عن جابر بن عبد الله قال: خطب النبي صلى الله عليه وسلم بعرفات فقال: "اتقوا الله في النساء فإنكم أخذتموهن بأمانة الله واستحللتم فروجهن بكلمة الله، وإن لكم عليهن أن لا يوطئن فرشكم أحدا تكرهونه فإن فعلن فاضربوهن ضربا غير مبرح، ولهن عليكم رزقهن وكسوتهن بالمعروف". وروى ليث عن عبد الملك عن عطاء عن ابن عمر قال: جاءت امرأة إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله ما حق الزوج على الزوجة؟ فذكر فيها أشياء: "لا تصدق بشيء من بيته إلا بإذنه فإن فعلت كان له الأجر وعليها الوزر" فقالت: يا رسول الله ما حق الزوج على زوجته؟ قال: "لا تخرج من بيته إلا بإذنه ولا تصوم يوما إلا بإذنه". وروى مسعر عن سعيد المقبري عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "خير النساء امرأة إذا نظرت إليها سرتك وإذا أمرتها أطاعتك وإذا غبت عنها حفظتك في مالك ونفسها."

(ج: 1، ص: 454، ط: دار الكتب العلمية)

وفیہ ایضاً:

"هو خطاب للأزواج لما في نسق الآية من الدلالة عليه، وهو قوله: {واهجروهن في المضاجع} ، وقوله: {وإن خفتم شقاق بينهما} الأولى أن يكون خطابا للحاكم الناظر بين الخصمين والمانع من التعدي والظلم وذلك; لأنه قد بين أمر الزوج وأمره بوعظها وتخويفها بالله ثم بهجرانها في المضجع إن لم تنزجر ثم بضربها إن أقامت على نشوزها، ثم لم يجعل بعد الضرب للزوج إلا المحاكمة إلى من ينصف المظلوم منهما من الظالم ويتوجه حكمه عليهما."

(ج: 2، ص: 238، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(أما) الطلاق السني في العدد والوقت ‌فنوعان ‌حسن ‌وأحسن ‌فالأحسن ‌أن ‌يطلق ‌امرأته ‌واحدة ‌رجعية ‌في ‌طهر لم يجامعها فيه ثم يتركها حتى تنقضي عدتها أو كانت حاملا قد استبان حملها."

(كتاب الطلاق،الباب الأول في.....،الطلاق السني، ج: 1، ص: 348، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610101802

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں