بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نبی اور رسول میں کیا فرق ہے نیز قرآن سے نبوت کا ثبوت


سوال

1۔ نبی اور رسول میں فرق ؟ دونوں الفاظ کی تعریف ؟

2۔قرآن میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے کا ثبوت کیا ہے ؟

جواب

1۔''نبی'' اور''رسول'' کی وضاحت میں اہل علم کے متعدد اقوال پائے جاتے ہیں،زیادہ راجح یہ ہے کہ ''رسول''اسے کہتے ہیں جو نئی شریعت لے کر آیاہو،اوراس کی دوصورتیں ہیں:1۔ایک تویہ یہ کہ وہ شریعت بالکل ہی نئی ہو،جسے کسی نبی نے ان سے پہلے پیش نہ کیاہو۔2۔یایہ کہ اس سے پہلے وہ شریعت آچکی ہو لیکن قوم کے لیے وہ نئی ہو،جیسے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شریعت ان کے والدحضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہی کی شریعت تھی،لیکن قوم ''جرہم''کوحضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذریعہ ہی اس کا علم ہوا،گویایہ شریعت اس قوم کے لیے نئی تھی۔

اور''نبی''اسے کہتے ہیں جس پر وحی آتی ہو ،خواہ وہ نئی شریعت لے کرآیاہو یاکسی قدیم شریعت ہی کامبلغ ہو جیسے اکثر انبیاء بنی اسرائیل حضرت موسی علیہ السلام ہی کی شریعت کی تبلیغ کرتے تھے۔

مشہور یہ ہے کہ ’’رسول‘‘ اس پیغمبر کو کہتے ہیں جس کو نئی کتاب اور نئی شریعت دی گئی ہو۔  اور ’’نبی‘‘ ہر پیغمبر کو کہتے ہیں، چاہے اسے نئی شریعت دی گئی ہو یا نہ دی گئی ہو اور وہ اپنے سے پہلے والےرسول کی اتباع کرتے ہوئے اس کی شریعت کی تبلیغ کرے۔

 حکیم الامت  حضرت  تھانوی رحمہ اللہ  دونوں کےفرق کو بیان کرتے ہوئے  فرماتے ہیں :

"ان دونوں  میں  عموم و خصوص من وجہ کی نسبت ہے، ’’رسول‘‘ وہ ہے جو مخاطبین کو شریعتِ جدیدہ پہنچائے، خواہ وہ شریعت خود اس رسول کے اعتبار سے بھی جدید ہو جیسے تورات وغیرہ یا صرف ان کی امت کے اعتبار سے جدید ہو جیسے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شریعت، وہ دراصل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قدیم شریعت ہی تھی، لیکن ’’قوم جرہم‘‘ جن کی طرف ان کو مبعوث فرمایا تھا، ان کو اس شریعت کا علم پہلے سے نہ تھا، حضرت اسماعیل علیہ السلام ہی کے ذریعہ ہوا۔ اس معنی کے اعتبار سے رسول کے لیے نبی ہونا ضروری نہیں، جیسے فرشتے کہ وہ رسول تو ہیں مگر نبی نہیں ہیں، یا جیسے حضرت عیسی علیہ السلام کے فرستادہ قاصد جن کو آیتِ قرآن(اِذْ جَآءَهَا الْمُرْسَلُوْنَ)[سورة یٰس :13]میں رسول کہا گیا ہے، حال آں کہ وہ انبیاء نہیں تھے۔
اور نبی وہ ہے جو صاحبِ وحی ہو خواہ شریعتِ جدیدہ کی تبلیغ کرے یا شریعتِ قدیمہ کی، جیسے اکثر انبیاءِ بنی اسرائیل شریعتِ موسویہ  کی تبلیغ کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایک اعتبار سے لفظِ رسول نبی سے عام ہے اور دوسرے اعتبار سے لفظِ نبی بہ نسبت رسول کے عام ہے، جس جگہ یہ دونوں لفظ ایک ساتھ استعمال کیےگئے جیسا کہ  سورۃ مریم میں( رَسُوْلاً نَّبِیًّا )[آيت 54]آیا ہے، وہاں تو کوئی اشکال نہیں کہ خاص اور عام دونوں جمع ہو سکتے ہیں، کوئی تضاد نہیں، لیکن جس جگہ یہ دو لفظ باہم متقابل آئے ہیں جیسے   (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِيٍّ)[سورة الحج :52]میں تو اس جگہ  مقام کے قرینہ کی وجہ سے  لفظِ ِنبی کو خاص اس شخص کے معنی میں لیا جائے گا جو شریعتِ سابقہ کی تبلیغ کرتا ہے۔"

( بحوالہ معارف القرآن، 6/ 42، سورۂ مریم، ط: مکتبہ معارف القرآن)

شیخ الاسلام علامہ شبیراحمدعثمانی رحمہ اللہ ''نبی اور''رسول''کافرق کرتے ہوئے''تفسیرعثمانی''میں لکھتے ہیں:

''جس آدمی کواللہ کی طرف سے وحی آئے وہ ''نبی''ہے ،انبیاء میں سے جن کو خصوصی امتیازحاصل ہو، یعنی مکذبین کے مقابلہ پر جداگانہ امت کی طرف مبعوث ہوں یانئی کتاب اورمستقل شریعت رکھتے ہوں،وہ''رسول نبی''یانبی رسول''کہلاتے ہیں ۔شرعیات میں جزئی تصرف مثلاً کسی عام کی تخصیص یامطلق کی تقییدوغیرہ رسول کے ساتھ خاص نہیں ،عام انبیاء بھی کرسکتے ہیں ۔باقی غیرانبیاء پررسول یامرسل کااطلاق جیساکہ قرآن کے بعض مواضع میں پایاجاتاہے  وہ اس معنی مصطلح کے اعتبارسے نہیں ۔وہاں دوسری حیثیات معتبرہیں۔"

(تفسیرعثمانی،سورہ مریم ، 2/ 491 ط:دارالاشاعت )

2۔قرآن کریم  میں جابجا متعدد مقامات پرحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے کا ذکرملتاہے،ایک جگہ ارشادہے:

"مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا (الاحزاب:40)"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405101826

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں