بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نا پاکی کی حالت میں مرنے والے کے غسل کا حکم


سوال

اگر کوئی ناپاکی کی حالت میں مر جائے، تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ ناپاکی (جنابت) کی حالت میں اگر کسی کا انتقال ہوجائے، تو ایسے شخص کو بھی عام حالت کی طرح ایک مرتبہ ہی غسلِ مسنون دیا جائے گا، دو مرتبہ غسل دینے کی ضرورت نہیں ہے، البتہ ناپاکی (جنابت) کی حالت میں مرنے والے کو مضمضہ اور استنشاق بھی کرایا جائے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويوضأ) من يؤمر بالصلاة (بلا مضمضة واستنشاق) للحرج، وقيل يفعلان بخرقة، وعليه العمل اليوم، ولو كان جنبا أو حائضا أو نفساء فعلا اتفاقا تتميما للطهارة.

(قوله: ولو كان جنبا إلخ) نقل أبو السعود عن شرح الكنز للشلبي أن ما ذكره الخلخالي أي في شرح القدوري من أن الجنب يمضمض ويستنشق غريب مخالف لعامة الكتب. اهـ.

قلت: وقال الرملي أيضا في حاشية البحر: إطلاق المتون والشروح والفتاوى يشمل من مات جنبا ولم أر من صرح به لكن الإطلاق يدخله، والعلة تقتضيه اهـ وما نقله أبو السعود عن الزيلعي من قوله: بلا مضمضة واستنشاق ولو جنبا صريح في ذلك لكني لم أره في الزيلعي."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب صلاة الجنازة، ج: 2، ص: 196،195، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"غسل الميت حق واجب على الأحياء بالسنة واجماع الأمة، كذا في النهاية، ولكن إذا قام به البعض سقط عن الباقين، كذا في الكافي، والواجب هو الغسل مرة واحدة والتكرار سنة حتى لو اكتفى بغسلة واحدة أو غمسة واحدة في ماء جار جاز، كذا في البدائع، ويجرد الميت إذا أريد غسله وهذا مذهبنا، كذا في الظهيرية."

 (كتاب الصلاة، الباب الحادي والعشرون في الجنائز، الفصل الثاني في غسل الميت، ج: 1، ص: 158، ط: دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506101343

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں