بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنی مطلقہ کی بیٹی سے نکاح کرنے کا حکم


سوال

ایک شخص نے اپنی بیوی کو  تین طلاق دے دی، اور اس نے اس عورت کو اپنے ساتھ رکھ لیا، اور پھر اس کی ایک بیٹی پیدا ہوگئی،اب اس شخص کا اس لڑکی سے نکاح کرنا کیسا ہیں؟ اور وہ لڑکی طلاق کے بعد پیدا ہوئی تھی۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کے لیے اپنی بیوی کو تین طلاق دینے کےبعداس مطلقہ کو اپنے ساتھ رکھنا اور کسی بھی طرح سے اس خاتون سے تعلق رکھنا جائز نہیں تھا، لہذا مذکورہ شخص کو  چاہیے کہ مطلقہ سے ہر طرح کی جدائی اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گناہوں پر صدقِ دل سے توبہ واستغفار کرے، باقی اس خاتون کی بیٹی کے ساتھ نکاح کرنا بھی کسی طرح جائز نہیں ہے۔

حدیث شریف میں مروی ہے:

"عن حجاج، عن أبي هانئ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من نظر إلى فرج امرأة، لم تحل له أمها، ولا ابنتها»".

(مصنف ابن أبي شيبة، کتاب النکاح، باب الرجل يقع على أم امرأته أو ابنة امرأته ما حال امرأته، رقم الحدیث: 16235، ج:3، ص:480، ط: مکتبة الرشد)

  ترجمہ:حضرت ابو ہانی رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص کسی عورت کی شرم گاہ کو دیکھے اس پر اس عورت کی ماں اور بیٹی حرام ہوجائیں گی۔

ایک اور حدیث میں ہے:

"عن أبي بكر بن عبد الرحمن بن أم الحكم، أنه قال: قال رجل: يا رسول الله، إني زنيت بامرأة في الجاهلية وابنتها، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " لاأرى ذلك، ولايصلح ذلك: أن تنكح امرأة تطلع من ابنتها على ما اطلعت عليه منها".

(مصنف عبد الرزاق، کتاب الطلاق، باب الرجل يزني بأخت امرأته، رقم الحدیث: 12784، ج:7، ص:201،  ط: المجلس العلمی)

ترجمہ: حضرت عبدالرحمن بن ام الحکم رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ میں زمانہ جاہلیت میں ایک عورت سے زنا کرچکا ہوں،  کیا میں اب اس کی لڑکی سے نکاح کرسکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ:  میں اس کو جائز نہیں سمجھتا اور یہ بھی جائز نہیں  ہے کہ تو ایسی عورت سے نکاح کرے جس کی بیٹی کے جسم کے ان حصوں کو تو  دیکھ چکا ہے جو حصے تو بیوی کے دیکھے گا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وتثبت حرمة المصاهرة بالنكاح الصحيح دون الفاسد، كذا في محيط السرخسي. فلو تزوجها نكاحا فاسدًا لاتحرم عليه أمها بمجرد العقد بل بالوطء هكذا في البحر الرائق. وتثبت بالوطء حلالا كان أو عن شبهة أو زنا، كذا في فتاوى قاضي خان. فمن زنى بامرأة حرمت عليه أمها وإن علت وابنتها وإن سفلت، وكذا تحرم المزني بها على آباء الزاني وأجداده وإن علوا وأبنائه وإن سفلوا، كذا في فتح القدير."

(كتاب النكاح،الباب الثالث في بيان المحرمات، القسم الثاني المحرمات بالصهرية، ج:1، ص:274، ط: مکتبہ رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100351

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں