بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مستورات کو قیام کی حالت میں پاؤں کیسے رکھنے چاہییں؟


سوال

مستورات کو قیام کی حالت میں  پاؤں کیسے رکھنے چاہییں؟

جواب

 قیام کی حالت میں دونوں پاؤں کے درمیان چار انگل کا فاصلہ رکھنا مستحب ہے اور یہ حکم مرد و عورت دونوں کے لیے ہے، لہٰذا مستورات کو اپنے دونوں پاؤں کے درمیان چار انگل کا فاصلہ رکھنا چاہیے،  ملا کر کھڑے ہونے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

امداد الاحکام میں ہے:

"سوال: عورت نماز میں قیام کے وقت دونوں پاؤں کے درمیان کتنا فاصلہ رکھے؟ اور کیا دونوں پاؤں کے ٹخنے بالکل ملا دے؟

 الجواب :

’’قال في رد المحتار: وينبغي أن يكون بينهما مقدار أربع أصابع اليد لأنه أقرب إلى الخشوع، هكذا روي عن أبي نصر الدبوسي إنه كان يفعله كذا في الكبرى. وما روي أنهم ألصقوا الكعاب بالكعاب أريد بها الجماعة أي قام كل واحد بجانب الآخر (ج: ۱، صفحہ: ۴۶۴)اس سے معلوم ہوا کہ وہ حالت قیام میں دونوں پیروں میں چار انگل کا فاصلہ مناسب ہے اور اسی حکم سے کسی جگہ عورتوں کو مسترد نہیں کیا گیا بس ان کے لئے بھی یہی مناسب ہے ہاں رکوع و سجود کی کیفیت مرد عورت کی مختلف ہے۔و اللہ اعلم ١٨ شوال سن ٤١‘‘۔

( كتاب الصلاة، بعنوان: عورت قیام کے وقت دونوں پاؤں کے درمیان کتنا فاصلہ رکھے؟ ج: ۱، صفحہ: ۴۶۶، ط: دار العلوم کراچی)

فتح القدیر  میں ہے:

"وينبغي أن يكون بين رجليه حالة القيام قدر أربع أصابع، وقال الطحاوي في المقارنة هو الصحيح."

(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، ج:١، صفحہ: ٢٩٦، ط: دار الفكر، لبنان)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح  میں ہے:

"و" يسن" تفريج القدمين في القيام قدر أربع أصابع" لأنه أقرب إلى الخشوع والترواح أفضل من نصب القدمين وتفسير التراوح أن يعتمد على قدم مرة وعلى الآخر مرة لأنه أيسر وأمكن لطول القيام.قوله: ويسن تفريج القدمين في القيام قدر أربع أصابع" نص عليه في كتاب الأثر عن الإمام ولم يحك فيه خلافا وفي الظهيرية وروى عن الإمام التراوح في الصلاة أحب إلي من أن ينصب قدميه نصبا فيما في منية المصلي من كراهة التمايل يمينا ويسارا محمول عن التمايل على سبيل التعاقب من غير تخلل سكون كما يفعله بعضهم حال الذكر لا الميل على إحدى القدمين بالاعتماد ساعة ثم الميل على الأخرى كذلك بل هو سنة ذكره ابن أمير حاج وكذا ما في الهندية عن الظهيرية وما في البناية عن الكشف من كراهة التراوح محمول على ما تقدم ثم هذا التحديد لمن ليس له عذر أما إذا كان به سمن أو أدرة ويحتاج إلى تفريج واسع فالأمر عليه سهل."

( كتاب الصلاة، فصل في بيان سننها، ص: ٢٦٢، ط:  دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508101288

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں