بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مصلّی کے لیے اذان دوسری مسجد سے دینے کا حکم


سوال

 ایک مصلّی جو نماز کے لیے وقف نہیں ہے، بلکہ عارضی طور پر نماز کے لیے بنایا تھا، اب اس کو ختم کرنے کا ارادہ ہے،  اس مصلی سے تھوڑا دور (100میٹر) پر دوسرا مصلی ہے وہ بھی وقف نہیں ہے، رمضان میں مغرب عشاء کی نماز دوسرے مصلے پر کرانے کا ارادہ ہے، کیوں کہ وہاں اسپیکر وغیرہ کا انتظام ہے جس سے سحری افطاری کے لیے سائرن بھی بجایا جائے گا، البتہ ظہر، عصر پرانے مصلّے پر ہی پڑھی جائے گی، اب پرانے مصّلی میں  ظہر، عصر کے لیے دوسری جگہ کے مصلی کے اسپیکر سے اذان دیناجائز ہے؟ اس لئے  کہ پہلے  والی جگہ پر اسپیکر کا انتظام نہیں ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب ظہر اور عصر کی نماز پرانی جگہ (مصلی) پر ہورہی ہے تواذان بھی  وہیں دینا مسنون ہے، لہذا پرانی جگہ پر ہی ظہر اور عصر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے  کے لیے اذان بھی پرانی جگہ پر  دی جائے اگرچہ اسپیکر کے بغیر ہی ہو۔ 

  فتاوی شامی میں ہے:

"(وكره تركهما) معًا (لمسافر) ولو منفردًا (وكذا تركها) لا تركه لحضور الرفقة (بخلاف مصل) ولو بجماعة (وفي بيته بمصر) أو قرية لها مسجد؛ فلايكره تركهما إذ أذان الحي يكفيه".

"(قوله: في بيته) أي فيما يتعلق بالبلد من الدار والكرم وغيرهما، قهستاني. وفي التفاريق: وإن كان في كرم أو ضيعة يكتفي بأذان القرية أو البلدة إن كان قريبًا وإلا فلا. وحد القرب أن يبلغ الأذان إليه منها اهـ إسماعيل. والظاهر أنه لايشترط سماعه بالفعل، تأمل.
(قوله: لها مسجد) أي فيه أذان وإقامة، وإلا فحكمه كالمسافر صدر الشريعة.
(قوله: إذ أذان الحي يكفيه) لأن أذان المحلة وإقامتها كأذانه وإقامته؛ لأن المؤذن نائب أهل المصر كلهم كما يشير إليه ابن مسعود حين صلى بعلقمة والأسود بغير أذان ولا إقامة، حيث قال: أذان الحي يكفينا، وممن رواه سبط ابن الجوزي فتح: أي فيكون قد صلى بهما حكما، بخلاف المسافر فإنه صلى بدونهما حقيقة وحكما؛ لأن المكان الذي هو فيه لم يؤذن فيه أصلا لتلك الصلاة كافي. وظاهره أنه يكفيه أذان الحي وإقامته وإن كانت صلاته فيه آخر الوقت تأمل، وقد علمت تصريح الكنز بندبه للمسافر وللمصلي في بيته في المصر، فالمقصود من كفاية أذان الحي نفي الكراهة المؤثمة. قال في البحر: ومفهومه أنه لو لم يؤذنوا في الحي يكره تركهما للمصلي في بيته، وبه صرح في المجتبى، وأنه لو أذن بعض المسافرين سقط عن الباقين كما لايخفى".

(کتاب الصلوۃ، باب الأذان، ص:395، ج:1، ط:سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308100926

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں