بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسلسل منی کے قطرے آنے سے پاکی اور نماز کا حکم


سوال

 ایک شخص کو ہر وقت منی کے قطرے آتے ہیں دو ہفتوں سے اس مرض میں مبتلا ہے، علاج جاری ہے  مسئلہ یہ ہے کہ وہ بندہ قاری قرآن ہے بچوں کو قرآن مجید پڑھاتا ہے، اب اس پریشانی میں مبتلا ہے کہ اسے قرآن مجید پڑھانا چاہیے یا نہیں؟ اور اس کی نماز کا کیا حکم ہے؟

جواب

 واضح رہے کہ منی کے قطرے جو شہوت کے بغیر نکلیں ان سے غسل واجب نہیں ہوتا،  البتہ وضو ٹوٹ جاتا ہے اور کپڑا بھی ناپاک ہو جاتا ہے،البتہ یہ  شخص شرعاً معذوراس وقت شمار ہوگا جب کہ ایک مرتبہ فرض نماز کا مکمل وقت اس طرح گزرے کہ پورے وقت میں وضو کر کے اس عذر کے بغیر فرض نماز پڑھنے کا موقع نہ ملے ، چنانچہ اگر مریض کو یہ قطرے اس تسلسل سے آرہے ہیں کہ درمیان میں اتنا وقفہ بھی نہیں ملتا کہ ایک وقت کی فرض نماز ادا کر سکے تو اس صورت میں وہ معذورین میں شامل ہیں، جن کا حکم یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے وقت وضو کرلیا کریں اور پھر اس وضو سے اس ایک وقت میں جتنے چاہیں فرائض اور نوافل ادا کریں اور تلاوتِ قرآنِ کریم کرلیں، (اس ایک وقت کے درمیان میں جتنے بھی قطرے آجائیں، اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا، بشرطیکہ کوئی اور سبب وضو کوتوڑنے کانہ پایا جائے) یہاں تک کہ وقت ختم ہوجائے، یعنی جیسے ہی اس فرض نماز کا وقت ختم ہوگا تو  وضو بھی ختم ہوجائے گا اور پھر اگلی نماز کے لیے دوبارہ وضو کرنا ہوگا،  پھر جب تک کسی نماز کا مکمل وقت اس عذر  کے (مثلًا: قطرے نکلے )  بغیر نہ گزر جائے وہ شرعًا معذور رہیں گے، اگر کسی نماز کا مکمل وقت اس عذر (قطروں) کے بغیر گزر گیا تو پھر یہ شرعی معذور نہیں رہیں گے۔

  اور کپڑوں کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اگر  منی کے قطرے کپڑوں پر گرے ہوئے ہوں تو اس صورت میں یہ دیکھا جائے گا کہ وہ کس تسلسل سے نکل رہے ہیں، اگر اتنا بھی وقت نہ ملے کہ بالفرض نماز شروع کرنے سے پہلے کپڑے کو دھویا، مگر دورانِ نماز وہ قطرے  دوبارہ  نکل آئے، تو اس صورت میں آپ پر ان قطروں کا دھونا واجب نہ ہوگا، اگرچہ یہ قطرے مقدارِ درہم سے تجاوز ہی کیوں نہ کرجائیں اور اگر آپ کو یہ گمان ہے کہ ان قطروں کو دھونے کے بعد  یہ  دورانِ نماز مزید نہ نکلیں گے تو اس صورت میں ان کا دھونا ضروری ہوگا۔

لیکن اگر   قطرے تسلسل سے نہ آئے ہوں، یعنی  ایک مرتبہ بھی کسی فرض نماز کا مکمل وقت  اس طرح نہیں گزرا ہو کہ پورے وقت میں وضو کر کے اس عذر کے بغیر فرض نماز پڑھنے کا موقع نہ ملے، بلکہ  کچھ دیر تک قطرے آنے کے بعد بند ہوجاتے ہیں یا درمیان میں اتنا وقفہ ہوجاتا ہے کہ جس میں فرض نماز ادا کی جاسکتی ہے  تو یہ  شرعاً معذورین میں شامل نہیں ہیں، اس لیے  ان مریض کا وضو  اِن قطروں سے ٹوٹ جائے گا اور کپڑے بھی ناپاک ہوجائیں گے اور ان کا دھونا (جب کہ وہ مقدار درہم سے تجاوز کرجائیں) ضروری ہوگا، اس صورت میں مریض کو چاہیے جب  منی قطرے بند ہوجائیں اور ان  کو اطمینان حاصل ہوجائے تو پھر اس کے بعد وضو کرکے نماز ادا کریں۔

 خلاصہ یہ کہ اس عذر کی حالت میں  بہتر  ہوگا کہ وہ نماز کے وقت کے لیے الگ کپڑا رکھیں اور دیگر اوقات کے لیے الگ کپڑا رکھیں، پھر بھی اگر نماز کے وقت پہنے ہوئے کپڑوں میں قطرے نکل آئیں تو اس کو پاک کرلیں،اور اس عذر کی حالت میں وہ قرآن کی تلاوت کرسکتے ہیں،اور بچوں کو بھی پڑھا سکتے ہیں ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لا يجد في جميع وقتها زمناً يتوضأ ويصلي فيه خالياً عن الحدث (ولو حكماً)؛ لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرةً (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة)؛ لأنه الانقطاع الكامل. ونحوه (لكل فرض) اللام للوقت كما في -{لدلوك الشمس}[الإسراء: 78]- (ثم يصلي) به (فيه فرضاً ونفلاً) فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل) أي: ظهر حدثه السابق، حتى لو توضأ على الانقطاع ودام إلى خروجه لم يبطل بالخروج ما لم يطرأ حدث آخر أو يسيل كمسألة مسح خفه. وأفاد أنه لو توضأ بعد الطلوع ولو لعيد أو ضحى لم يبطل إلا بخروج وقت الظهر.(وإن سال على ثوبه) فوق الدرهم (جاز له أن لا يغسله إن كان لو غسله تنجس قبل الفراغ منها) أي: الصلاة (وإلا) يتنجس قبل فراغه (فلا) يجوز ترك غسله، هو المختار للفتوى، وكذا مريض لا يبسط ثوبه إلا تنجس فورا له تركه (و) المعذور (إنما تبقى طهارته في الوقت) بشرطين (إذا) توضأ لعذره و (لم يطرأ عليه حدث آخر، أما إذا) توضأ لحدث آخر وعذره منقطع ثم سال أو توضأ لعذره ثم (طرأ) عليه حدث آخر، بأن سال أحد منخريه أو جرحيه أو قرحتيه ولو من جدري ثم سال الآخر (فلا) تبقى طهارته."

(کتاب الطھارۃ،مطلب في احكام المعذور،305/1،ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"شرط ثبوت العذر ابتداءً أن یستوعب استمراره وقت الصلاة کاملاً، وهو الأظهر، کالانقطاع لایثبت مالم یستوعب الوقت کله ... المستحاضة ومن به سلس البول … یتوضؤن لوقت کل صلاة، ویصلون بذلک الوضوء في الوقت ماشاؤا من الفرائض و النوافل … ویبطل الوضوء عند خروج وقت المفروضة بالحدث السابق … إذا کان به جرح سائل وقد شد علیه خرقةً فأصابها الدم أکثر من قدر الدرهم، أو أصاب ثوبه إن کان بحال لوغسله یتنجس ثانیاً قبل الفراغ من الصلاة، جاز أن لا یغسله وصلی قبل أن یغسله وإلا فلا، هذا هو المختار."

(كتاب الطهارة،الباب السادس،40،41/1،ط:رشيديه)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144402101512

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں