بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مردہ عورت سے بدکاری کرنے کا حکم


سوال

ایک شحص نے کسی مردہ عورت سے بدکاری کا ارتکاب کیا ،اس  کی سزا تجویز کریں اور اس کی وجہ بھی بتائیں!

جواب

صورتِ مسئولہ میں مردہ عورت سے بدکاری کرنےوالے شخص پر  حد واجب نہیں ہوتی تعزیر واجب ہوتی ہے ،بدکاری کرناکبیرہ گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ ہے اور احادیث مبارکہ میں بدکاری کرنے والے کو ملعون قرار  دیا گیاہے ، اور مردہ عورت سے بدکاری کرنے سے اس  کی قباحت اور زیادہ ہوجاتی ہے۔

 تعزیراً دی جانے والی سزا صرف قاضی یا حاکم وقت اپنی صواب دید کے اعتبار سے مقرر کرسکتاہے۔

قال اللہ تعالى: 

"وَلَا تَقْرَبُواْ ٱلزِّنَىٰٓ  إِنَّهٗ كَانَ فٰحِشَةً وَسَآءَ سَبِيلًا."

(سورۃ بنی اسرائیل،آیت نمبر:32)

ترجمہ:"اور زنا کے پاس مت پھٹکو بلاشبہ وہ بڑی بے حیائی کی بات ہے اور وہ بری راہ ہے۔"(بیان القرآن)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في الدرربنحو الإحراق بالنار و هدم الجدار و التنكيس في محل مرتفع باتباع الأحجار،و في الحاوي و الجلد أصح ،و في الفتح يعزر و يسجن حتى يموت أو يتوب ولو اعتاد اللواطة قتله الإمام سياسة."

(كتاب الجنايات،باب الوطء الذي يوجب الحد والذي لايوجبه،ج :4 ،ص: 27،ط: سعيد) 

فتاوی  عالمگیری میں ہے:

"رجل زنى بامرأة ميتة اختلفوا فيه قال أهل المدينة حد وقال أهل البصرة يعزر ولا يحد. وقال الفقيه أبو الليث - رحمه الله تعالى - وبه نأخذ."

(کتاب الحدود،باب الوطء الذي یوجب الحد و الذي لایوجبه، ج:2 ،ص:150، ط:رشیدیة)

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"وإنّما شرطنا أن يكون كلّ واحد منهما مشتهى لصاحبه، فإن وطئ المرأة الميتة لايوجب الحدّ، وكذالك وطؤ البهيمة لايوجب الحدّ." 

(كتاب الحدود ،الفصل الأول في معرفة الزنا الموجب للحدّ و في معرفة حدّ الزنا، ج: 6 ، ص: 327 ،ط: رشيدية)

فتح القدير ميں ہے:

"فالأولى في تعريفه أنه وطء مكلف طائع مشتهاة حالا أو ماضيا في القبل بلا شبهة ملك في دار الإسلام، فخرج زنا الصبي والمجنون والمكره وبالصبية التي تشتهى والميتة والبهيمة ودخل وطءالعجوز.

(قوله ومن وطئ بهيمة فلا حد عليه) وكذا إذا زنى بميتة لأنه للزجر، وإنما يحتاج إلى الزجر فيما طريق وجوده منفتح سالك. وهذا ليس كذلك لأنه لا يرغب فيه العقلاء ولا السفهاء، وإن اتفق لبعضهم ذلك لغلبة الشبق فلا يفتقر إلى الزاجر لزجر الطبع عنه.

 (ومن أتى امرأة في الموضع المكروه أو عمل عمل قوم لوط - عليه السلام - فلا حد عليه عند أبي حنيفة ويعزر، وزاد في الجامع الصغير: ويودع في السجن، وقالا: هو كالزنا فيحد) وهو أحد قولي الشافعی۔۔۔۔۔(قوله ومن أتى امرأة) أي أجنبية (في الموضع المكروه) أي دبرها (أو عمل عمل قوم لوط فلا حد عليه عند أبي حنيفة ولكنه يعزر) ويسجن حتى يموت أو يتوب، ولو اعتاد اللواطة قتله الإمام محصنا كان أو غير محصن سياسة۔۔۔۔في موجبه من الإحراق بالنار وهدم الجدار والتنكيس من مكان مرتفع باتباع الأحجار وغير ذلك."

(کتاب الحدود ،باب الوطء الذی یوجب الحد والذی لایوجبہ،ج :5،ص: 239 و 236،ط: دار الكتب العلمية) 

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101413

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں