بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مروجہ پاجامے اور شلوار کاحکم


سوال

کیا مروجہ شلوار صحابہ کرام سے ثابت ہے یا مروجہ پاجامہ؟ نیز آج کل پہنے جانے والی شلوار یا پاجامہ خلاف سنت رسول یا خلاف سنت صحابہ ہے؟مجھے ایک صاحب نے کہا ہے کہ مولانا مکی حجازی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہادت کے وقت شلوار پہنے ہوئےتھے، کیا یہ صحیح ہے؟

جواب

سیرت کی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عام معمول تہبند لنگی پہننے کا تھا، پاجامہ کا خریدنا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، لیکن پہننا ثابت نہیں، البتہ صحابہ سے پاجامہ کا پہننا بھی ثابت ہے، لیکن وہ پاجامہ ڈھیلا ڈھالا ہوا کرتا تھا، جیساکہ لباس کی شرائط میں سے ہے کہ ڈھیلا ڈھالا ہو اور اس سے جسم نہ جھلکے، لہذا اگر مروجہ پاجامہ اور شلوار ان شرائط پر پورے اترتے ہوں تو وہ عین سنت تونہیں کہلائیں گے، لیکن سنت کے قریب اور صلحاء کا لباس ضرور ہیں۔نیز اس موقع پر ایک وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ کسی عمل کا سنت کے مطابق نہ ہونا اور چیز ہے اور اس کا خلافِ سنت ہونا الگ شے ہے، اگر لباس شرعی اصولوں کے مطابق ہے تو ضروری نہیں کہ وہ عین سنت کے مطابق بھی ہو، کیوں کہ سنت کے مطابق تو اسی صورت میں کہا جاسکتا ہے جب وہی لباس ہو جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے پہنا ہے۔ البتہ شرعی اصلوں کے مطابق ہونے کی بنا پر ایسے لباس کو خلافِ سنت بھی نہیں کہا جائے گا۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بوقتِ شہادت پاجامہ پہننے کا ذکر کتابوں میں ملتا ہے۔تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیے: زاد المعاد از امام ابن قیم رحمہ اللہ اور شمائلِ کبری از مفتی ارشاد احمد قاسمی۔ واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143512200017

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں