بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مقتدی کے کہنے پر امام کا نماز میں آگے بڑھنا


سوال

دو آدمی جماعت سے نماز پڑھ رہے ہیں ،ایک امام اور ایک مقتدی ؛اب تیسرا آدمی جماعت میں شریک ہونے کے لیے آئے تو مسئلہ یہ ہے کہ اول امام کو چاہیے کہ وہ تیسرے آدمی کا احساس ہوتے ہی آگے بڑھ جائے یا یہ کہ آنے والے شخص کو چاہیے کہ اس مقتدی کو پیچھے کھینچ لے؛ اب دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ صورت مذکورہ میں تیسرا شخص آیا ، امام آگے نہیں بڑھا،لیکن اس آنے والے نے امام سے آگے بڑھنے کو کہا ،اور امام اس کے کہنے پر آگے بڑھا تو کیا تلقن من الخارج کی اس صورت سے نماز فاسد ہوگی یا نہیں؟

جواب

اگر دو آدمی جماعت سے نماز پڑھ رہے ہوں   تیسرا آدمی آجائے تو مقتدی کو چاہیے کہ وہ پیچھے ہوجائے یا تیسرا آدمی مقتدی کو تھوڑا سا پیچھے کی طرف کھینچ لے، اگر تیسرا آدمی بھی  امام  کے  برابر  کھڑا ہوجائے تو امام کو چاہیے کہ وہ  دونوں مقتدیوں کو اشارے سے پیچھے کردے، البتہ اگر پیچھے کی جانب جگہ نہ ہو تو امام کو چاہیے کہ وہ آگے ہوجائے اور تیسرا آدمی امام کے پیچھے پہلے مقتدی کے برابر میں کھڑا ہو جائے۔صور ت مسئولہ میں اگر    تیسرے شخص نے امام کو آگےبڑھنےکا کہا اور امام اس   کی بات  سن کر فوراً   آگے  بڑھ گیا تو  اس صورت میں نماز فاسد ہو جاۓگی ، لیکن اگر امام نے تحری کی یعنی کچھ لمحہ غور و فکر کیا، اور کچھ وقفہ کے بعد آگے ہوگیا تو نماز فاسد نہیں ہوگی ۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(والزائد) يقف (خلفه) فلو توسط اثنين كره تنزيهاً، وتحريماً لو أكثر.

" (قوله: والزائد خلفه) عدل تبعاً للوقاية عن قول الكنز: والاثنان خلفه؛ لأنه غير خاص بالاثنين، بل المراد ما زاد على الواحد، اثنان فأكثر، نعم! يفهم حكم الأكثر بالأولى. وفي القهستاني: وكيفيته أن يقف أحدهما بحذائه والآخر بيمينه إذا كان الزائد اثنين، ولو جاء ثالث وقف عن يسار الأول، والرابع عن يمين الثاني والخامس عن يسار الثالث، وهكذا. اهـ. وفيه إشارة إلى أن الزائد لو جاء بعد الشروع يقوم خلف الإمام، ويتأخر المقتدي الأول، ويأتي تمامه قريباً. (قوله: كره تنزيهاً) وفي رواية: لا يكره، والأولى أصح، كما في الإمداد. (قوله وتحريماً لو أكثر) أفاد أن تقدم الإمام أمام الصف واجب كما أفاده في الهداية والفتح. (قوله: كره إجماعاً) أي للمؤتم، وليس على الإمام منها شيء، ويتخلص من الكراهة بالقهقرى إلى خلف إن لم يكن المحل ضيقاً على الظاهر ... والذي يظهر أنه ينبغي للمقتدي التأخر إذا جاء ثالث، فإن تأخر وإلا جذبه الثالث إن لم يخش إفساد صلاته، فإن اقتدى عن يسار الإمام يشير إليهما بالتأخر، وهو أولى من تقدمه؛ لأنه متبوع؛ ولأن الاصطفاف خلف الإمام من فعل المقتدين لا الإمام، فالأولى ثباته في مكانه وتأخر المقتدي، ويؤيده ما في الفتح عن صحيح مسلم: «قال جابر: سرت مع النبي صلى الله عليه وسلم في غزوة، فقام يصلي، فجئت حتى قمت عن يساره، فأخذ بيدي فأدارني عن يمينه، فجاء ابن صخر حتى قام عن يساره فأخذ بيديه جميعاً فدفعنا حتى أقامنا خلفه» اهـ وهذا كله عند الإمكان، وإلا تعين الممكن. والظاهر أيضاً أن هذا إذا لم يكن في القعدة الأخيرة، وإلا اقتدى الثالث عن يسار الإمام ولا تقدم ولا تأخر."

(کتاب الصلاۃ، باب الإمامة، ج: 1، ص: 567، 568، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"وفي القنية: قيل لمصل منفرد تقدم بأمره أو دخل رجل فرجة الصف فتقدم المصلي حتى وسع المكان عليه فسدت صلاته، وينبغي أن يمكث ساعة ثم يتقدم برأي نفسه، وعلله في شرح القدوري بأنه امتثال لغير أمر الله تعالى."

 (‌‌کتاب الصلاۃ، باب الإمامة، ج: 1، ص: 571، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"لو قيل له تقدم فتقدم أو دخل أحد الصف فوسع له فورا فسدت ذكره الحلبي."

(کتاب الصلاۃ، ‌‌باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج: 1، ص: 644، ط: سعید)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"ولو نادى رجل فقال: اقرءوا الفاتحة لأجل المهمات فقرأ المسبوق تفسد صلاته وبه يفتى."

 (کتاب الصلاۃ، الباب السابع، الفصل الأول فيما يفسدها، ج: 1، ص: 100، ط: دار الفکر بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102578

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں