بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مقدس اَوراق کی حفاظت


سوال

اگر  دیوبند  کی مسجد میں کوئی غیرمسلک والا مقدس اَوراق  رکھ  دے تو ان اَوراق کا کیا کرنا  چاہیے؟ ان کی مسجد میں رکھ دیں یا مسجد میں مقدس اَوراق کا جو بکس ہوتا ہے، اس میں ڈال دیں؟

جواب

کاغذ  بذاتِ خود  قابلِ قدر  ہے، اور ذریعۂ علم ہے، اس اعتبار سے بھی اسے بے محل استعمال کرنا یا پھینک دینا بے ادبی ہے، اور اگر اس  میں اللہ   جل شانہ  یا  رسول  ﷺ   کانامِ  مبارک ہو، یا قرآنِ پاک کی کوئی آیت یا حدیثِ مبارک یا دین کی کوئی بات ہو تو اس کا تقدس بہت بڑھ جاتاہے، اور بالقصد ایسے کاغذ کی بے حرمتی کرنا جس پر قرآنِ پاک لکھا ہو، انسان کو دائرہ اسلام سے خارج کردیتا ہے؛ لہٰذا مقدس اوراق کا ادب  وا حترام  اور انہیں بے ادبی سے بچانے کے لیے  محفوظ مقام تک پہنچادینا  ہر مسلمان کی شرعی اور اخلاقی  ذمہ داری  ہے ،  اس میں  مسلکی اختلاف  کو بیچ میں  ڈالنا  انتہائی  کم ظرفی ہے۔

’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ میں ہے:

’’و یکرہ أن یجعل شیئاً فی کاغذ فيها اسم اللّٰہ تعالٰی کانت الکتابة علی ظاهرہا أو باطنها.‘‘

(فتاویٰ عالمگیری،ج:۵،ص:۳۲۲،ط:ماجدیہ)

و فیه أیضاً:

’’المصحف إذا صار خلقًا لایقرأ منه و یخاف أن یضیع یجعل فی خرقة طاهرة و یدفن ودفنهْ أولى من وضعهٖ موضعًا یخاف أن یقع علیه النجاسة أو نحو ذلك و یلحد له؛ لأنه لوشقّ و دفن یحتاج إلٰی إہالة التراب علیه و في ذٰلك نوع تحقیر إلا إذا جعل فوقه سقف بحیث لایصل التراب إلیه فهو أیضاً، کذا في الغرائب. المصحف إذا صار خلقًا و تعذرت القراءة منه لایحرق بالنار أشار الشیباني إلٰی هذا في السیر الکبیر، و بهٖ نأخذ، کذا في الذخیرۃ.‘‘

    (فتاویٰ عالمگیری، ج:۵،ص:۳۲۳، ط:ماجدیہ)     

فقط واللہ  اعلم 


فتوی نمبر : 144206200589

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں