بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ملازمت کے دوران نوافل پڑھنے کا حکم


سوال

کیا دوران ڈیوٹی نوافل یا چاشت کی نماز ادا کر سکتے ہیں ؟

جواب

واضح  رہے کہ ملازمت کے اوقات میں نوافل ،چاشت  کی ادائیگی سے منع کیا گیاہے، البتہ اگرملازم کو ادارے کی جانب سے اس کی اجازت ہو اور ملازمت میں مفوضہ امور کی انجام دہی میں کوئی خلل نہ پڑتاہو تو اوقاتِ ملازمت میں  نوافل پڑھ سکتاہے۔اور اگر  ملازم کوملازمت کے اوقات میں ادارے کی جانب سے نوافل کی ادائیگی کی اجازت نہ ہو تو ملازم کے لیے  ڈیوٹی کے اوقات میں نوافل پڑھنے کی اجازت نہیں ، البتہ ادا کئےگئے نوافل ادا ہوجائیں گے۔ اور اگر نوافل اتنی مقدار یا اتنے وقت میں  پڑھے کہ مفوضہ امور کی ذمہ داری میں خلل پیدا ہو تو  اس کے بقدر اجرت لینا حلال نہیں ہوگا۔

     فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى. وفي غريب الرواية قال أبو علي الدقاق: لا يمنع في المصر من إتيان الجمعة، ويسقط من الأجير بقدر اشتغاله إن كان بعيدا، وإن قريبا لم يحط شيء فإن كان بعيدا واشتغل قدر ربع النهار يحط عنه ربع الأجرة. (قوله ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة".

(ردالمحتار علیٰ الدرالمختار،  کتاب الإجارة،مطلب ليس للأجير الخاص أن يصلي النافلة، 6/70ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100747

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں