ہمارے یہاں (بنگلہ دیش میں) شادی، نو مولود کی ولادت، ٹرین کے سفر وغیرہ کے موقع پر مخنث لوگ زبردستی رقم وصول کرتے ہیں، اگر نہ دیا جائے تو بہت بے حیائی والی حرکتیں کرتے ہیں، گویا ایک قسم سے مجبور کرتے ہیں۔ اب جاننا یہ ہے کہ ان کا اس طرح زبردستی رقم وصول کرنے کا کیا حکم ہے؟ نیز عزت بچانے کےلیے کیا ان کو رقم دینا ضروری ہے؟
صورتِ مسئولہ میں مخنثوں کا لوگوں سے شادی بیاہ وغیرہ کے موقع پر زبردستی رقم لینا جائز نہیں، تاہم اگر کوئی شخص اپنی عزت بچانے اور جان چھڑانے کے لیے ان کو رقم دے دے تو کوئی حرج نہیں،البتہ عوام کو چاہیے کہ اجتماعی طور پر اس رسمِ بد کا بائیکاٹ کریں۔
حدیث پاک میں ہے:
"حدثنا أبو كريب وواصل بن عبد الأعلى قالا: حدثنا ابن فضيل عن عمارة بن القعقاع عن أبي زرعة عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من سأل الناس أموالهم تكثراً، فإنما يسأل جمراً فليستقل أو ليستكثر".
(صحيح مسلم، كتاب الزكاة، باب كراهة المسألة للناس، ٣/ ٩٦، ط: دار الطباعة العامرة)
حدیثِ پاک میں ہے:
"عن قبيصة بن مخارق الهلالي قال: تحملت حمالةً، فأتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أسأله فيها، فقال: أقم حتى تأتينا الصدقة فنأمر لك بها، قال: ثم قال: يا قبيصة! إن المسألة لا تحل إلا لأحد ثلاثة: رجل تحمل حمالةً فحلت له المسألة حتى يصيبها ثم يمسك، ورجل أصابته جائحة اجتاحت ماله فحلت له المسألة حتى يصيب قواماً من عيش ـ أو قال: سداداً من عيش ـ، ورجل أصابته فاقة حتى يقوم ثلاثة من ذوي الحجا من قومه لقدأصابت فلاناً فاقة فحلت له المسألة حتى يصيب قواماً من عيش ـ أو قال: سداداً من عيش ـ، فما سواهن من المسألة يا قبيصة سحتاً يأكلها صاحبها سحتاً".
(صحيح مسلم، كتاب الزكاة، باب من تحل له المسألة، ٣/ ٩٧، ط: دار الطباعة العامرة)
درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"لا يجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي.
قوله (بلا سبب شرعي) لأنه بالأسباب الشرعية كالبيع، والإجارة، والهبة، والكفالة، والحوالة يحق أخذ مال الغير."
(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، المادة: ١ / ٩٧- ٩٨، ط: دار الجيل)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144604101686
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن