بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

محمد رافع نام رکھنا


سوال

میں نے اپنے بیٹے کا نام محمد رافع  رکھا ہے، کیا اللہ پاک کے ناموں کے ساتھ محمد  لگاسکتے ہیں ؟

جواب

"اسماء الحسنٰی" میں سے بعض ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں، ان اسماء کا استعمال اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں ہے، جب کہ بعض "اسماء الحسنٰی" (صفاتی نام) ایسے ہیں جو قرآن وحدیث میں غیراللہ کے لیے بھی استعمال ہوئے ،ایسے ناموں کے شروع میں"عبد"لگانا لازم نہیں،  ان ناموں کے آغاز میں "محمد" کا سابقہ درست ہے۔ مذکورہ نام "رافع"بھی اس میں شامل ہے؛ لہذا  "محمد  رافع " نام  رکھنا درست ہے۔

البتہ جو اسماء باری تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہیں، ان کے شروع میں "عبد"لگانا لازم ہے، البتہ  ان ناموں میں "عبد" لگانے کے  ساتھ  ساتھ  آغاز میں "محمد"  بھی  لگاسکتے ہیں،جیسے: محمد عبدالرزاق، محمد عبدالخالق وغیرہ۔

 مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

" اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام دو طرح کے ہیں: پہلی قسم:وہ نام ہیں جوقرآن و حدیث میں غیراللہ کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لیے بھی۔ غنی، حق، حمید، طاہر، جلیل، رحیم، رشید، علی، کریم، عزیز وغیرہ کا استعمال قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ بندوں کے لیے بھی ہواہے؛ لہٰذا ایسے صفاتی نام بندوں کے لیے بھی رکھے جاسکتے ہیں، اور ان ناموں کے ساتھ عبد لگانا ضروری نہیں۔ دوسری قسم:وہ نام ہیں جوقرآن و حدیث میں صرف اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوئے ہیں اور غیراللہ کے لیے ان کا استعمال ثابت نہیں ہے۔ "رحمن، سبحان، رزّاق، خالق، غفار " قرآن وسنت میں اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کے لیے نہیں آتے؛ لہٰذا ان ناموں کے ساتھ کسی کا نام رکھنا ہو تو ان کے ساتھ "عبد" کا لفظ ملانا ضروری ہے، جیسے: عبدالرحمن، عبدالسبحان، عبدالرزاق، عبدالخالق، عبدالغفار وغیرہ۔ بعض لوگ لاعلمی یا لاپروائی کی بنا پر عبدالرحمن کو رحمٰن، عبدالرزاق کو رزّاق، عبدالخالق کو خالق، عبدالغفار کو غفار کہہ کر پکارتے ہیں، ایسا کرنا ناجائز ہے۔" مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ایسا کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔ جتنی مرتبہ یہ لفظ پکارا جاتا ہے اتنی ہی مرتبہ گناہِ کبیرہ کا ارتکاب ہوتا ہے اور سننے والا بھی گناہ سے خالی نہیں ہوتا‘‘۔

(تفسیر معارف القرآن، تفسیر آیت ۱۸۰،ص ۱۳۲، ج ۴)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 417):

" وجاز التسمية بعلي ورشيد من الأسماء المشتركة، ويراد في حقنا غير ما يراد في حق الله تعالى.

 (قوله: وجاز التسمية بعلي إلخ) الذي في التتارخانية عن السراجية: التسمية باسم يوجد في كتاب الله تعالى كالعلي والكبير والرشيد والبديع جائزة إلخ، ومثله في المنح عنها، وظاهره الجواز ولو معرفاً بأل".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201753

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں