بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مدت ِ رضاعت میں دودھ پینے سے حرمت کا حکم


سوال

اگر کسی بچہ نے دو برس چار دن میں کسی عورت کا دودھ پیا ، پھر  بالغ ہونے کے بعد اس عورت کی کسی  لڑکی سے نکاح ہو سکتا ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ بچہ کو دودھ پلانے کی مدت دو سال ہے ،دوسال کے بعد دودھ پلانا جائز نہیں حرام ہے ؛لیکن حرمت ِ نکاح کے لیے ڈھائی سال کی مدت ہے یعنی ڈھائی سال کے عرصہ میں  بچہ کسی عورت کا دودھ پی لے گا تو وہ عورت اس کی ماں اور اس کی اولاد اس کے بہن بھائی  بن جائیں گے ۔

لہذا صورت ِ مسئولہ میں    مذکورہ  عورت کے کسی بھی لڑکی کے ساتھ اس  بچہ کا نکاح  شرعاً جائز نہیں ہے، اس عورت کی تمام اولاد اس بچے کے حق میں رضاعی بھائی بہن بن گئے ۔

مبسوط سرخسی میں ہے :

"ثم اختلف العلماء في المدة التي تثبت فيها حرمة الرضاع ، فقدر أبو حنيفة رحمه الله تعالى بثلاثين شهراً وأبو يوسف ومحمد - رحمهما الله تعالى - قدرا ذلك بحولين وزفر قدر ذلك بثلاث سنين، فإذا وجد الإرضاع في هذه المدة تثبت الحرمة وإلا فلا، واستدلا بظاهر قوله تعالى: {والوالدات يرضعن أولادهن حولين كاملين لمن أراد أن يتم الرضاعة}، ولا زيادة بعد التمام والكمال، وقال الله تعالى: { وفصاله في عامين}، ولا رضاع بعد الفصال، ولأن الظاهر أن الصبي في مدة الحولين يكتفي باللبن وبعد الحولين لايكتفي به فكان هو بعد الحولين بمنزلة الكبير في حكم الرضاع وأبو حنيفة رحمه الله تعالى استدل بقوله تعالى: {وحمله وفصاله ثلاثون شهراً} وظاهر هذه الإضافة يقتضي أن يكون جميع المذكور مدةً لكل واحدة منهما إلا أن الدليل قد قام على أن مدة الحبل لاتكون أكثر من سنتين فبقي مدة الفصال على ظاهره، وقال الله تعالى: {فإن أرادا فصالاً عن تراض منهما وتشاور} الآية فاعتبر التراضي والتشاور في الفصلين بعد الحولين فذلك دليل على جواز الإرضاع بعد الحولين، وقال الله تعالى: {وإن أردتم أن تسترضعوا أولادكم فلا جناح عليكم} قيل: بعد الحولين إذا أبت الأمهات، ولأن اللبن كما يغذي الصبي قبل الحولين يغذيه بعده والفطام لايحصل في ساعة واحدة، لكن يفطم درجةً فدرجةً حتى ينسى اللبن ويتعود الطعام، فلا بد من زيادة على الحولين بمدة، وإذا وجبت الزيادة قدرنا تلك الزيادة بأدنى مدة الحبل، وذلك ستة أشهر اعتبارًا للانتهاء بالابتداء، وبهذا يحتج زفر رحمه الله تعالى أيضاً إلا أنه يقول: لما وجب اعتبار بعض الحول وجب اعتبار كله، وتقدر مدة الفطام بحول؛ لأنه حسن للاختبار والتحول به من حال إلى حال. (قال:) فإن فطم الصبي قبل الحولين ثم أرضع في مدة ثلاثين شهراً عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى أو في مدة الحولين عندهما، فالظاهر من مذهبهما وهو قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى: أنه تثبت به الحرمة لوجود الإرضاع في المدة، فصار الفطام كأن لم يكن، وروى الحسن عن أبي حنيفة رحمهما الله تعالى قال: هذا إذا لم يتعود الصبي الطعام حتى لايكتفي به بعد هذا الفطام".

(باب الرضاع،ج:5،ص:137،دارالمعرفۃ)

در مختار میں ہے :

"(فيحرم منه) أي بسببه (ما يحرم من النسب) رواه الشيخان۔"

(فتاوی شامی،باب الرضاع،ج:۳،ص:۲۱۳،سعید)

فتاوی رحیمیہ میں ہے :

"سوال: رضاعت کی مدت کتنی ہے یعنی کس مدت میں دودھ پینے سے نکاح کی حرمت کا حکم ثابت ہوتا ہے ؟

جواب:بچہ کو دودھ پلانے کی مدت دو سال ہے ،دوسال کے بعد دودھ پلانا جائز نہیں حرام ہے ؛لیکن حرمت ِ نکاح کے لیے ڈھائی سال کی مدت ہے یعنی ڈھائی سال کے عرصہ میں  بچہ کسی عورت کا دودھ پی لے گا تو وہ عورت اس کی ماں اور اس کی اولاد اس کے بہن بھائی  بن جائیں گے۔۔۔۔۔الخ"

(کتاب الرضاع،ج:8،ص:249،دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101893

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں