بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

متعال نام رکھنا


سوال

اگر نام متعال رکھیں تو اس کے ساتھ عبد لگانا ضروری ہے یا صرف محمد متعال رکھ سکتے  ہیں ؟

جواب

متعال اللہ تعالی کے صفاتی ناموں میں سے ہے،اور یہ نام اللہ تعالی کے  علاوہ مخلوق کے لیے استعمال نہیں ہوتا ہے،اس لیے متعال کے ساتھ محمد  لگانا صحیح نہیں ہے،البتہ"عبد المتعال" نام رکھنا درست ہےاور  "عبد المتعال" کا معنی ہو گا: متعال کا بندہ۔

قران پاك ميں ارشاد رباني هے:

"عَٰلِمُ ٱلۡغَيۡبِ وَٱلشَّهَٰدَةِ ٱلۡكَبِيرُ ‌ٱلۡمُتَعَالِ."

( سورة الرعدايت ٩)

فتح الباری میں حافظ ابن حجر اسماء الحسنی کے بحث میں فرماتے ہیں:

"وفي الرعد كبير متعال."

( باب قول لا حول ولا قوة إلا بالله، ج:11، ص:218، ط: دار المعرفة)

تفسیر روح المعانی میں ہے :

"وذكر غير واحد من العلماء ‌أن ‌هذه ‌الأسماء منها ما يرجع إلى صفة فعلية ومنها ما يرجع إلى صفة نفسية ومنها ما يرجع إلى صفة سلبية. ومنها ما اختلف في رجوعه إلى شيء مما ذكر وعدم رجوعه وهو الله والحق أنه اسم للذات وهو الذي إليه يرجع الأمر كله، ومن هنا ذهب الجل إلى أنه الاسم الأعظم، وتنقسم قسمة أخرى إلى ما لا يجوز إطلاقه على غيره سبحانه وتعالى كالله والرحمن وما يجوز كالرحيم والكريم وإلى ما يباح ذكره وحده كأكثرها وإلى ما لا يباح ذكره كذلك كالمميت والضار فإنه لا يقال: يا مميت يا ضار بل يقال: يا محيي يا مميت ويا نافع يا ضار، والذي أراه أنه لا حصر لأسمائه عزت أسماؤه في التسعة والتسعين۔۔۔۔۔۔۔"

(سورۃ الاعراف،ج:5،ص:115،دارالکتب العلمیۃ)

فتاوی شامی میں ہے :

"‌وجاز ‌التسمية ‌بعلي ورشيد من الأسماء المشتركة ويراد في حقنا غير ما يراد في حق الله تعالى لكن التسمية بغير ذلك في زماننا أولى لأن العوام يصغرونها عند النداء كذا في السراجية

(قوله: ‌وجاز ‌التسمية ‌بعلي إلخ) الذي في التتارخانية عن السراجية التسمية باسم يوجد في كتاب الله تعالى كالعلي والكبير والرشيد والبديع جائزة إلخ، ومثله في المنح عنها وظاهره الجواز ولو معرفا بأل."

(کتاب الحظر والإباحة،ج:6،ص:417،سعید)

تحفۃ المودود باحکام المولود میں ہے :

"ومما يمنع تسمية الإنسان به أسماء الرب تبارك وتعالى فلا يجوز التسمية بالأحد والصمد ولا بالخالق ولا بالرازق وكذلك سائر الأسماء المختصة بالرب تبارك وتعالى ولا تجوز تسمية الملوك بالقاهر والظاهر كما لا يجوز تسميتهم بالجبار والمتكبر والأول والآخر والباطن وعلام الغيوب۔۔۔۔۔وأما الأسماء التي تطلق عليه وعلى غيره كالسميع والبصير والرؤوف والرحيم فيجوز أن يخبر بمعانيها عن المخلوق ولا يجوز أن يتسمى بها على الإطلاق بحيث يطلق عليه كما يطلق على الرب تعالى."

(الباب الثامن فی ذکر تسمیته وأحکامها۔۔۔۔،ص:125،دارالبیان)

  اللہ تعالی کے کن ناموں کے ساتھ "عبد " لگانا ضروری ہے۔  اس کی تفصیل میں مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’ اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام دو طرح کے ہیں: پہلی قسم:وہ نام ہیں جوقرآن و حدیث میں غیراللہ کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لیے بھی۔ غنی، حق، حمید، طاہر، جلیل، رحیم، رشید، علی، کریم، عزیز وغیرہ کا استعمال قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ بندوں کے لیے بھی ہواہے؛ لہٰذا ایسے صفاتی نام بندوں کے لیے بھی رکھے جاسکتے ہیں، اور ان ناموں کے ساتھ عبد لگانا ضروری نہیں۔ دوسری قسم:وہ نام ہیں جوقرآن و حدیث میں صرف اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوئے ہیں اور غیراللہ کے لیے ان کا استعمال ثابت نہیں ہے۔ "رحمن، سبحان، رزّاق، خالق، غفار " قرآن وسنت میں اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کے لیے نہیں آتے؛ لہٰذا ان ناموں کے ساتھ کسی کا نام رکھنا ہو تو ان کے ساتھ "عبد" کا لفظ ملانا ضروری ہے، جیسے: عبدالرحمن، عبدالسبحان، عبدالرزاق، عبدالخالق، عبدالغفار وغیرہ۔ بعض لوگ لاعلمی یا لاپروائی کی بنا پر عبدالرحمن کو رحمٰن، عبدالرزاق کو رزّاق، عبدالخالق کو خالق، عبدالغفار کو غفار کہہ کر پکارتے ہیں، ایسا کرنا ناجائز ہے۔‘‘

مزید فرماتے ہیں:

’’ایسا کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔ جتنی مرتبہ یہ لفظ پکارا جاتا ہے اتنی ہی مرتبہ گناہِ کبیرہ کا ارتکاب ہوتا ہے اور سننے والا بھی گناہ سے خالی نہیں ہوتا۔‘‘

(تفسیر معارف القرآن، تفسیر آیت ۱۸۰،ص ۱۳۲، ج ۴)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412101356

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں