بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

موجودہ حالات میں عید کی نماز کیسے ادا کریں؟


سوال

 موجودہ حالات میں اگر مسجد جانے پر پابندی ہو تو کیا ایک بلڈنگ کے 10،  15 لوگ مل کر ایک جگہ جمع ہو کر نمازِ عید ادا کر سکتے ہیں؟

جواب

 اگر کسی ملک میں مساجد یا عیدگاہ میں عید کی نماز ادا کرنے پر پابندی ہو، تو لوگوں کو  چاہیے کہ وہ مساجد کے علاوہ جس جگہ بھی جمع ہو سکیں جمع ہو کر عید کی نماز قائم کرنے کی کوشش کریں۔ 

موجودہ حالات میں اگر بڑا اجتماع ممکن نہ ہو تو شہر کے متعدد مقامات پر امام کے علاوہ جتنے بھی افراد جمع ہو سکیں جمع ہو کر عید کی نماز ادا کرلیں؛ چناں چہ عید کی نماز کا وقت (یعنی اشراق کا وقت) داخل ہوجانے کے بعد امام دو رکعت نماز  بایں طورپڑھا ئے کہ پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے بعد  ہاتھ باندھ کر ثناء پڑھے، پھر تین زائد تکبیرات کہے، اور ہر تکبیر میں رفع یدین بھی کرے، (یعنی ہر تکبیر کہتے وقت کانوں کی لو تک ہاتھ اٹھائے)،  تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ کر سورہ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھے، اس کے بعد رکوع سجود حسبِ معمول کرے، اور دوسری رکعت میں کھڑے ہوکر پہلے سورہ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھنے کے بعد تین زائد تکبیرات کہے، اور ہر تکبیر میں کانوں تک ہاتھ اٹھائے، اس کے بعد چھوتھی تکبیر رکوع کے لیے کہی جائے، بقیہ نماز حسبِ معمول ادا کی جائے۔ 

عید کی نماز ادا کرنے کے بعد امام منبر یا زمین پر کھڑےہوکر  دو خطبے کہے، اگر خطبہ یاد نہ ہو تو دیکھ کر پڑھ لے، اور اگر دیکھ کر پڑھنا دشو ار ہو یا خطبہ دست یاب ہی نہ ہو تو حمد و صلاۃ کے بعد کچھ  قرآنی آیات پہلے اور دوسرے خطبہ میں پڑھ لے۔

ملحوظ رہے کہ یہ حکم موجودہ اضطراری صورتِ حال کے لیے ہے، عام حالات میں عید کی نماز عیدگاہ یا بڑی جامع مسجد میں بڑے اجتماع میں ادا کرنا شرعاً مطلوب ہے۔

سہولت کے لیے دیکھیے خطبہ عید :

عیدین کے خطبے اور ان میں تکبیرات سے متعلق احکام

نوٹ: حکومتِ پاکستان نے عید کے اجتماع سے پابندی اٹھالی ہے، لہٰذا اہلِ پاکستان کو چاہیے کہ وہ عیدگاہ اور مساجد میں بڑے مجمعے کے ساتھ عید کی نماز ادا کرنے کا اہتمام کریں۔

الفقه علي المذاهب الأربعة  میں ہے:

"الحنفية قالوا: صلاة العيدين واجبة في الأصح على من تجب عليه الجمع بشرائطها، سواء كانت شرائط وجوب أو شرائط صحة، إلا أنه يستثنى من شرائط الصحة الخطبة، فإنها تكون قبل الصلاة في الجمعة وبعدها في العيد، ويستثنى أيضاً عدد الجماعة، فإن الجماعة في صلاة العيد تتحقق بواحد مع إمام، بخلاف الجمعة، وكذا الجماعة فإنها واجبة في العيد يأثم بتركها، وإن صحت الصلاة بخلافها في الجمعة، فإنها لاتصح إلا بالجماعة، وقد ذكرنا معنى الواجب عند الحنفية في "واجبات الصلاة" وغيرها، فارجع إليه". (مباحث صلاة العيدين، حكم صلاة العيدين، ووقتهما، ١ / ٣١٣، ط: دار الكتب العلمية) فقط والله أعلم

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:

لاک ڈاؤن میں عید کی نماز کا طریقہ


فتوی نمبر : 144109202357

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں