کوئی شخص اگر موبائل ٹاور لگاتا ہو اور وہ آپ کو کوئی چیز ہدیہ دے تو اس کا کیا حکم ہے؟
جس چیز کا جائز اور ناجائز دونوں طرح استعمال کیا جاسکتا ہو اس کی سروسز فراہم کرنا جائز ہے، اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی حرام نہیں ہے ، البتہ اگر کسی شخص کے بارے میں یقینی معلوم ہو کہ وہ اس کو گناہ کے کاموں میں استعمال کرے گاتو اس کو ایسی سروسر فراہم کرنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے، چوں کہ موبائل کا بنیادی مقصد باہم رابطہ ہے، اور اس کا جائز استعمال موجود ہے، لہذا موبائل کے ٹاور لگانے کا کام ناجائز نہیں ہے، اور ایسے شخص کا ہدیہ قبول کرنا بھی درست ہے۔
البحرالرائق میں ہے :
"وقد استفيد من كلامهم هنا أن ما قامت المعصية بعينه يكره بيعه، وما لا فلا، ولذا قال الشارح: إنه لايكره بيع الجارية المغنية والكبش النطوح والديك المقاتل والحمامة الطيارة".(5/155).
فتاوی شامی میں ہے :
"وكذا لايكره بيع الجارية المغنية والكبش النطوح والديك المقاتل والحمامة الطيارة؛ لأنه ليس عينها منكراً، وإنما المنكر في استعمالها المحظور اهـ قلت: لكن هذه الأشياء تقام المعصية بعينها لكن ليست هي المقصود الأصلي منها، فإن عين الجارية للخدمة مثلاً والغناء عارض فلم تكن عين المنكر، بخلاف السلاح فإن المقصود الأصلي منه هو المحاربة به فكان عينه منكراً إذا بيع لأهل الفتنة، فصار المراد بما تقام المعصية به ما كان عينه منكر بلا عمل صنعة فيه، فخرج نحو الجارية المغنية؛ لأنها ليست عين المنكر، ونحو الحديد والعصير؛ لأنه وإن كان يعمل منه عين المنكر لكنه بصنعة تحدث فلم يكن عينه". (4/268)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144207200849
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن