بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

موبائل میں قرآن پاک کی تلاوت کا حکم


سوال

 کیا موبائل میں قرآن پاک پڑھنا جائز ہے؟ اور بعیر وضو کے بھی پڑھ سکتے ہے یا نہیں؟ رہنمائی فرمائیں؟

جواب

موبائل میں قرآنِ کریم  کی تلاوت کر سکتے ہیں،  البتہ موبائل کی اسکرین پر   قرآنِ کریم  کھلا ہوا ہو تو  اس  (اسکرین) کو  وضو کے بغیر چھونا جائز نہیں ہے، اس کے علاوہ  موبائل کے دیگر حصوں کو  مختلف  اطراف  سے وضو کے بغیر چھونے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

باقی قرآنِ مجید مصحف میں دیکھ کر پڑھنا افضل ہے، اس لیے مصحف کو دیکھنا، اس کو چھونا اور اس کو اٹھانا  یہ اس کا احترام ہے، اور اس میں معانی میں زیادہ تدبر کا موقع ملتا ہے، اور یہ سب ثواب کا ذریعہ ہے، ظاہر ہے کہ یہ سب باتیں موبائل میں مکمل  حاصل نہیں ہوتیں، اس لیے جہاں تک ہوسکے مصحف ہی سے پڑھا جائے، اگر کبھی ضرورت ہو تو موبائل سے پڑھ لیں، ورنہ عام حالات خصوصاً مسجد میں جہاں سہولت سے قرآن میسر بھی ہیں وہاں موبائل کے بجائے مصحف سے قرآنِ مجید پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

’’لابأس بقراء القرآن إذا وضع جنبه علی الأرض، ولکن ینبغي أن یضم رجلیه عند القراءة، کذا في المحیط. لا بأس بالقراء ة مضطجعاً إذا أخرج رأسه من اللحاف؛ لأنه یکون کاللبس، وإلا فلا، کذا في القنیة‘‘.

(کتاب الکراهية، الباب الرابع في الصلاة والتسبیح وقراءة القرآن والذکر...،ج: ۵، صفحہ: ۳۱۶، ط: ط: رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) يحرم (به) أي بالأكبر (وبالأصغر) مس مصحف: أي ما فيه آية كدرهم وجدار، وهل مس نحو التوراة كذلك؟ ظاهر كلامهم لا (إلا بغلاف متجاف) غير مشرزأو بصرة به يفتى، (قوله: أي ما فيه آية إلخ) أي المراد مطلق ما كتب فيه قرآن مجازا، من إطلاق اسم الكل على الجزء، أو من باب الإطلاق والتقييد. قال ح: لكن لا يحرم في غير المصحف إلا بالمكتوب: أي موضع الكتابة كذا في باب الحيض من البحر، وقيد بالآية؛ لأنه لو كتب ما دونها لا يكره مسه كما في حيض القهستاني. وينبغي أن يجري هنا ما جرى في قراءة ما دون آية من الخلاف، والتفصيل المارين هناك بالأولى؛ لأن المس يحرم بالحدث ولو أصغر، بخلاف القراءة فكانت دونه تأمل".

( کتاب الطھارۃ،ج: ۱، صفحہ: ۱۷۳، ط: ایچ، ایم، سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144505100774

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں