بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 ذو الحجة 1446ھ 12 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

موبائل فون پر لڑکا اور لڑکی کا ایجاب وقبول کرنا۔


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری ایک اجنبی لڑکی سے دوستی ہوگئی تھی، اور فون پر ہمارے رابطے ہونے لگے، اس دوران اس نے فون پر مجھے کہا کہ میں آپ کو قبول کرتی ہوں، اور میں نے بھی جواب میں کہا کہ میں بھی آپ کو قبول کرتا ہوں، اور ہمارے درمیان دو تولہ مہر بھی مقرر ہوا، کچھ وقت گزرنے کے بعد میں نے اپنے خاندان میں بھی کچھ لوگوں سے اس بات کا تذکرہ کیا، اور ایک مولوی صاحب سے بھی، تو انہوں نے کہا کہ یہ تو نکاح ہو چکا ہے، اور آپ پر مہر بھی لازم ہے، ا ب بات یہ ہے کہ ہم دونوں نے فون پر صرف مذاق کی حد تک کہا تھا، نکاح کی کوئی نیت نہیں تھی، یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد بھی ہم دونوں الگ رہتے ہیں، میاں بیوی کی طرح ہم نہیں رہتے، کیا ہمارا نکاح ہو چکا ہے؟ راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ شرعاً نکاح کے صحیح ہونے کے لیے ایجاب و قبول کی مجلس کا ایک ہونا  اور اس میں جانبین میں سے دونوں کا  خود موجود ہونا  یا ان کے وکیل کا موجود ہونا ضروری ہے،  نیز مجلسِ نکاح میں دو گواہوں کا ایک ساتھ موجود ہونا اور دونوں گواہوں کا اسی مجلس میں نکاح کے ایجاب و قبول کے الفاظ کا سننا بھی شرط ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں گواہوں کی عدمِ موجودگی میں  صرف فون پر ایجاب وقبول کرنے سے نکاح منعقد نہیں ہوا ہے،اور نہ ہی مہر لازم ہوگا، نیز سائل اور مذکورہ لڑکی کا آپس میں کوئی رشتہ قائم نہیں ہوا ،اس لیے دونوں آپس میں غیرمحرم ہیں، دونوں کا آپس میں گفتگو کرنا اور تعلقات قائم رکھنا شرعاً ناجائز و حرام ہے، اِس پر توبہ و استغفار کریں اور آئندہ کے لیےاجتناب کریں۔

الدر المختار مع رد المحتارمیں ہے:

"و من شرائط الإيجاب والقبول: اتحاد المجلس لو حاضرين (قوله: اتحاد المجلس) قال في البحر: فلو اختلف المجلس لم ينعقد."

(کتاب النکاح، ج: 3، ص: 14، ط: دار الفکر بيروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويشترط العدد فلا ينعقد النكاح بشاهد واحد هكذا في البدائع ولا يشترط وصف الذكورة حتى ينعقد بحضور رجل وامرأتين، كذا في الهداية ولاينعقد بشهادة المرأتين بغير رجل وكذا الخنثيين إذا لم يكن معهما رجل هكذا في فتاوى قاضي خان......(ومنها) أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لاينعقد وكذا إذا كان أحدهما غائبا لم ينعقد حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين: زوجت نفسي من فلان وهو غائب فبلغه الخبر فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانة وهي غائبة فبلغها الخبر فقالت: زوجت نفسي منه لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين، وهذا قول أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى- ولو أرسل إليها رسولاً أو كتب إليها بذلك كتاباً فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب جاز؛ لاتحاد المجلس من حيث المعنى."

(کتاب النکاح، الباب الأول في تفسير النكاح شرعا وصفته وركنه وشرطه وحكمه، ج: 1، ص: 269/267، ط: دار الفکر بيروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ثم النكاح كما ينعقد بهذه الألفاظ بطريق الأصالة ينعقد بها بطريق النيابة، بالوكالة، والرسالة؛ لأن تصرف الوكيل كتصرف الموكل، وكلام الرسول كلام المرسل، والأصل في جواز الوكالة في باب النكاح ما روي أن النجاشي زوج رسول الله صلى الله عليه وسلم أم حبيبة - رضي الله عنها - فلايخلو ذلك إما أن فعله بأمر النبي صلى الله عليه وسلم أو لا بأمره، فإن فعله بأمره فهو وكيله، وإن فعله بغير أمره فقد أجاز النبي صلى الله عليه وسلم عقده والإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة".

(کتاب النکاح، فصل رکن النکاح، ج: 2، ص: 231، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611101159

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں