بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

موبائل سے تصویر کھینچنے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں موبائل سے تصویر کھینچنا کیسا ہے؟

جواب

دینِ اسلام میں جان دار کی  تصویر سازی، کسی بھی شکل میں ہو (متحرک ہو یا ساکن)کسی بھی طریقے سے بنائی جائے، بناوٹ کے لیے جو بھی آلہ استعمال ہو، کسی بھی غرض و مقصد سے تصویر بنائی جائے، حرام ہے، اس تنوع واختلاف سے صورت گری اور تصویر سازی کے حکم میں کوئی فرق یانرمی نہیں آتی، نصوص کی کثیر تعداداور بے شمار فقہی تصریحات اس مضمون کے بیان پر مشتمل ہیں، جو اہلِ علم سے مخفی نہیں ہیں، ماضی قریب تک تصویر سازی کی حرمت کا مسئلہ اہلِ علم کے ہاں مسلم و متفق علیہ رہا ہے اور اسے بدیہی امور میں سمجھا جاتا تھا، یعنی جس کو عرف نے تصویر کہا وہ تصویر قرار پائی۔

لہذا کسی بھی جان دار کی تصویر کھینچنا، بنانایا بنوانا ناجائز اور حرام ہے، خواہ  اس تصویر کشی کے  لیے موبائل  یااس کے علاوہ کوئی بھی  آلہ استعمال کیا جائے،اہلِ علم و اہلِ فتوی کی بڑی تعداد کی تحقیق کے مطابق تصویر کے جواز وعدمِ جواز کے بارےمیں ڈیجیٹل اور غیر ڈیجیٹل کی تقسیم شرعی نقطہ نظر سے ناقابلِ اعتبار ہے 

فتاوی شامی میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره اهـ كلام البحر ملخصا."

(كتاب الصلوة، مكروهات الصلوة، ج:1، ص:647، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144207201177

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں