بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میزان بینک میں سیونگ اکاؤنٹ کھلوانے کا حکم


سوال

میں نے میزان بینک میں سیونگ اکاؤنٹ کھلوایا ہے،وہ مجھے کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں علماء کرام  کے فتوے ہیں،  وہ مجھے کہتے ہیں: یہ سودنہیں ہے ، ہم تمہارے پیسے مضاربت کے طور پر رکھتےہیں اورکاروبار کرتے ہیں، میں  نےپوچھا کہ مجھے نقصان کیوں نہیں ہورہا ؟تو وہ کہتے ہیں کہ میزان بینک اس جگہ میں انوسٹمنٹ کرتے ہیں جہاں نقصان  کا اندیشہ نہ ہو،لہذا میری راہ نمائی فرمائیں کہ یہ اکاؤنٹ سود کا  تونہیں؟ 

جواب

واضح رہے  کہ مروجہ غیر سودی بینکوں کا اگرچہ یہ دعوی ہے کہ وہ علماءِ کرام کی نگرانی میں شرعی اصولوں کے مطابق کام کرتے ہیں، لیکن درحقیقت ان بینکوں کا طریقہ کارشرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہے،اس لیے  ان بینکوں میں بھی سیونگ اکاؤنٹ کھلواکر اس پر منافع لینا   سود ہونے کی وجہ سےشرعاً ناجائز  ہے،لہذا صورت ِ مسئولہ میں میزان بینک میں سیونگ اکاؤنٹ  کھلوانا اور اس پرمنافع لینا ناجائز  ہے ۔البتہ کرنٹ اکاؤنٹ کھولنے کی اجازت ہے۔

باقی میزان بینک والوں کا یہ کہنا کہ "ہم تمہارے پیسے مضاربت کے طور پر رکھتےہیں اورکاروبار کرتے ہیں"،یہ  بات درست نہیں، کیوں کہ ان کی مضاربت وغیرہ شریعت کے مطابق نہیں ۔

 الدر مع الرد میں ہے:

"وفي الأشباه: ‌كلُّ ‌قرضٍ ‌جرَّ نفعاً حرامٌ .... (قوله: ‌كلُّ ‌قرضٍ ‌جرَّ نفعاً حرامٌ) أي إذا كان مشروطاً كما عُلم مما نقله عن البحر وعن الخلاصة".

(الدر مع الرد،کتاب البیوع، باب المرابحۃ والتولیۃ، مطلب کل قرض جرّنفعاً حرامٌ،ج:۵،ص:۱۶۶،ط:سعید)

الفتاوی الہندیۃ میں ہے:

"(الفصلُ السّادس في تفسير الرِّبا وأحكامه) وهو في الشرع عبارةٌ عن فضلِ مالٍ ‌لا ‌يُقابله ‌عوضٌ في معاوضة مالٍ بمالٍ وهو محرَّمٌ في كلِّ مكيلٍ وموزونٍ بِيعَ مع جنسه وعلّتُه القدر والجنس".

(الفتاوی الهندیة، کتاب البیوع، الباب التاسع، الفصل السادس،ج:۳،ص:۱۱۷،ط:دار االفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100403

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں