بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

میاں بیوی میں طلاق کے بعد شادی کے موقع پر دی جانے والی چیزوں کا مطالبہ


سوال

کیا طلاق کے بعد لڑکا اور لڑکی اپنے دیے ہوئے تحائف زیورات اور قیمتی اَشیاء واپس مانگ  سکتے ہیں خصوصاً اگر لڑکی کے گھر والے اپنےدیے ہوئے تحائف اور خاطر تواضع پر لگائی گئی رقم تک مانگ رہے ہوں تو  کیا لڑکا یا اس کے گھر والے بھی اپنا دیا ہوا مال زیور اور قیمتی اشیاء وغیرہ کی واپسی کا تقاضہ کر سکتے ہیں؟

جواب

نکاح  کے موقع پر لڑکی کو جو میکہ والوں اور سسرال والوں کی طرف سے سامان ، کپڑے اور زیور  وغیرہ ملتا ہے اس کے شرعی حکم میں یہ تفصیل ہے کہ   جو سامان   جہیز،کپڑے،اور زیور وغیرہ  لڑکی کو میکہ والوں کی طرف سے ملتا ہے وہ لڑکی کی ملکیت  شمار ہوتی ہے، اسی طرح  لڑکے والوں کی طرف سے جو عام  استعمال کی چیزیں مثلاً کپڑے ، جوتے ، گھڑی وغیرہ لڑکی کو  دیے جاتے ہیں ، اسی طرح منہ دکھائی کے موقع پر جو چیز دی جائے، یہ سب  بھی لڑکی  ہی کی ملکیت ہے، لہذا میاں بیوی میں طلاق کے بعد اس کا لڑکی سے مطالبہ نہیں کیا جاسکتا۔

اور  لڑکی کو  نکاح کے موقع پر مہر کے علاوہ جو  زیورات سسرال والوں کی طرف سے ملتے ہیں، ان میں یہ تفصیل ہے کہ اگر  زیورات دیتے وقت  سسرال والوں نے اس بات  کی صراحت کی تھی کہ یہ  بطورِ عاریت یعنی صرف  استعمال کرنے کے لیے ہیں  تو پھر یہ  زیورات لڑکے والوں کی ملکیت ہوں گے، اور اگرسسرال والوں نےہبہ ، گفٹ اور  مالک بناکر دینے کی صراحت کردی تھی تو پھر ان زیورات  کی مالک لڑکی ہوگی، اور اگر  زیورات دیتے وقت کسی قسم کی صراحت نہیں  کی تھی   تو پھر لڑکے کے خاندان کے عرف کا اعتبار ہوگا، اگر ان کا عرف و رواج بطورِ ملک دینے کا ہے  یا ان کا کوئی رواج نہیں ہے تو ان دونوں صورتوں میں زیورات کی مالک لڑکی ہوگی، اور اگر  بطورِ عاریت دینے کا رواج ہے تو  پھر سسرال والے ہی مالک ہوں گے۔

نیز نکاح کے موقع پر لڑکی والوں نے لڑکے  والوں کی خاطر تواضع پر جو رقم خرچ کی ہے، یا لڑکے کو کوئی چیز تحفہ میں دی ہے تو   میاں بیوی میں طلاق ہوجانے کے بعد وہ اس کا مطالبہ نہیں کرسکتے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"كل أحد يعلم الجهاز للمرأة إذا طلقها تأخذه كله، وإذا ماتت يورث عنها".

(3/158، باب المہر، ط؛سعید)        

       وفیہ أیضاً:

"قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضاً."

(3/ 153،  کتاب النکاح، باب المہر، ط: سعید)

وفیہ أیضاً:

"و المعتمد البناء على العرف كما علمت."

(3/157، باب المہر، ط؛ سعید)       

فتاوی عالمگیری  میں ہے:

"و إذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها، منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية."

(1 / 327، الفصل السادس عشر فی جہاز البنت، ط: رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200367

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں