بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میاں بیوی میں علیحدگی کے بعد جہیز کا سامان، اور زیورات کی ملکیت


سوال

میرے بیٹے نے شادی کے تقریباً دو سال بعد اپنی بیوی کو بعض معقول وجوہات کی بنا  پر طلاق دے دی، اب سامان کا مسئلہ ہے ، سامان سے متعلق شرعی حکم کیا ہے ؟

ہم نے سونا لڑکی کودیا تھا اس کے علاوہ اور بھی تحائف دیئے تھے، اس سونے سے متعلق شرعی حکم کیا ہے ؟یہ کس کی ملکیت ہوگا؟  لڑکی سونا ساتھ لے کر چلی گئی ہے ، جب تک لڑکی ہمارے ہاں تھی، وہ سونا لڑکی نے اپنی ماں کے پاس رکھوایا تھا، حالانکہ میرے بیٹے نے اس سے کہا بھی تھا کہ ہم یہاں 'لاکر' کھول کر اس میں رکھ دیتے ہیں،  مگر وہ سونا واپس نہیں لائی ، واضح رہے کہ اس سونے کی زکوۃ میرا بیٹا ہی اداکرتا رہاہے، اور اس لڑکی سے مطالبہ بھی کیا تھا کہ تم وہ سونا واپس لاؤ، ہمارے خاندان میں بھی یہ سونا رسمی طور پر چڑھایا جاتا ہے ، ایک سوال یہ ہے کہ اب  شرعی طورپراس سونے کا کیا حکم ہے ؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ : لڑکی والوں کی جانب سے جو سامان دیا گیا تھا شرعاًفرنیچر وغیرہ اس کا کیا حکم ہے ؟  وہ سامان ہمارے پاس موجود ہے ، ہم نے لڑکی والوں سے کہا ہے کہ اپنا سامان اٹھالو، لیکن وہ اپنا سامان نہیں اٹھارہے ، ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم سامان اٹھائیں گے تو اس میں جو چیزیں فکس ہوتی ہیں ان کے خراب ہونے کا اندیشہ ہے ، نیز وہ کہتے ہیں کہ یہ سامان آپ کی پسند تھا، حالانکہ یہ سامان خود ان کی بیٹی نے پسند کیا تھا اور رقم بھی خود انہوں نے اپنے ہاتھ سے ادا کی تھی ، نہ کہ ہم نے ۔ تو اب وہ کہہ رہے ہیں کہ آپ اس سامان کی قیمت دیں۔کیا ان کا یہ مطالبہ  شرعی طور پر درست ہے ؟

جواب

 نکاح کے موقع پر لڑکی کو    جو سامان  جہیز،کپڑے،اور زیور وغیرہ اپنے والدین کی طرف سے ملے ہیں یا   لڑکے والوں کی طرف سے جو عام  استعمال کی چیزیں مثلاً کپڑے ، جوتے ، گھڑی وغیرہ  ملی ہیں، یا منہ دکھائی کے موقع پر جو چیز دی  گئی ہے     یہ سب لڑکی کی ملکیت ہے، اس کو دینا  ضروری ہے۔

باقی لڑکے نے  جو شادی کے موقع پر  ( مہر کے علاوہ)  جو  زیورات لڑکی کو دئیے تھےاس کے حکم  میں یہ تفصیل ہے کہ اگر  زیورات دیتے وقت   لڑکے نے اس بات  کی صراحت کی تھی کہ یہ صرف  استعمال کرنے کے لیے ہیں  تو پھر یہ  زیورات لڑکے  کی ملکیت ہوں گے، اور اگر لڑکے  نےہبہ ، گفٹ اور  مالک بناکر دینے کی صراحت کی  تھی تو پھر ان زیورات/سونے  کی مالک لڑکی ہوگی، اور اگر  زیورات دیتے وقت کسی قسم کی صراحت نہیں  کی تھی   تو پھر لڑکے کے خاندان کے عرف کا اعتبار ہوگا، اگر ان کا عرف و رواج بطورِ ملک دینے کا ہے  یا ان کا کوئی رواج نہیں ہے تو ان دونوں صورتوں میں زیورات کی مالک لڑکی ہوگی، اور اگر  بطورِ عاریت دینے کا رواج ہے تو  پھر لڑکا اس کا  مالک ہوگا ،  لہذا صورت مسئولہ میں اگر واقعۃ ً سائل  نے اپنے بیٹے کے  نکاح پر بہو  کو  جو زیورات دئیے تھے وہ صرف استعمال کے لیے دئیے تھے اور ان کے خاندان کا رواج بھی یہی ہے کہ یہ زیورات صرف رسمی طور پر لڑکی کو دئیے جاتے ہیں، مالک بناکر نہیں دئیے جاتے تو ایسی صورت میں لڑکی ان زیورات کی مالک نہیں ہوگی بلکہ مذکورہ زیورات لڑکے والوں کی  ملکیت میں برقرار  رہیں گے۔

2: لڑکی والوں کی جانب سے اپنی بیٹی کو جو سامان/ فرنیچر وغیرہ  شادی کے موقع پر دیا گیا تھا ، اس کی مالک لڑکی ہی ہے، لہذا   لڑکی والے وہ سامان وصول کرسکتے ہیں، لیکن مذکورہ سامان وصول کرنے کےبجائے   اس  کی قیمت کا مطالبہ نہیں کرسکتے ، البتہ باہمی رضامندی سے خریدوفروخت کا معاملہ ہوجائے اور   لڑکے والے وہ سامان خرید لیں    تو یہ جائز ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"كل أحد يعلم الجهاز للمرأة إذا طلقها تأخذه كله، وإذا ماتت يورث عنها."

(3 /158، باب المہر، ط: سعید)  

وفیہ أیضاً:

"قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضاً."

 (3/ 153،  کتاب النکاح، باب المہر، ط: سعید)

وفیہ أیضاً:

"والمعتمد البناء على العرف كما علمت." 

(3 /157، باب المہر، ط: سعید)

فتاوی عالمگیری  میں ہے:

"و إذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها، منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية."

(1 / 327، الفصل السادس عشر فی جهاز البنت، ط: رشیدیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409101523

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں