بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

’’مِرحَا‘‘ یا ’’مِرحَہ‘‘ اور ’’حریم فاطمہ‘‘ نام کا مطلب اور رکھنے کا حکم


سوال

 مرحا ( م ر زیر ح ا زبر) یا حریم فاطمہ نام رکھنا کیسا ہے؟  ان دونوں کے مطلب بھی بتا دیں!

جواب

(۱)’’مرحا‘‘ کا درست تلفظ ’’مِرحَہ‘‘ ہے یعنی ’م‘ کے نیچے زیر (کسرہ)، ’ر‘ ساکن، ’ح‘ پر زبر (فتحہ) اور ’ح‘ کے بعد الف کے بجائے ’ہ‘  ہے۔ ’’مِرحه‘‘  (میم کے کسرہ اور آخر میں ھ کے ساتھ) کے ایک معنی اترانے کے ہیں اور دوسرا معنی’’ خشک انگور کا ڈھیر ‘‘ کے آتے ہیں، یہ نام رکھنا درست نہیں ہے۔

اسی طرح لفظ ’’مَرحٰی‘‘ (میم کے فتحہ اور ح کے کھڑے زبر کے ساتھ )’’مَرِح‘‘ کی جمع بھی ہے، مرح کا معنی (اترانے والا) یا (ہلکا) آتا ہے۔یہ نام رکھنا بھی درست نہیں ہے۔

لیکن   ’’مَرحیٰ‘‘ (میم کے فتحہ اور ح کے کھڑے زبر(الف مقصورہ ) کے ساتھ)  تیر کے نشانے پر لگنے کی صورت میں شاباشی دینے کے لیے  بھی استعمال ہوتا ہے، اس معنیٰ کے اعتبار سے یہ نام رکھنا جائز تو ہوگا، لیکن چوں کہ غلط معنیٰ کا وہم برقرار رہے گا؛ اس لیے نہ رکھنا بہتر ہے، اور ویسے بھی زیادہ بہتر  اور افضل تو یہی ہے کہ بچیوں کے نام صحابیات رضی اللہ عنہن کے ناموں  میں سے کسی کے نام پر رکھے جائیں۔

(۲)’’حریم‘‘  قابل حفاظت چیز کو کہتے ہیں، عربی زبان میں اس لفظ  کا اطلاق بیوی اور ان قریبی رشتہ دار خواتین (مثلًا ماں، بہن، بیٹی وغیرہ) پر ہوتا ہے جن کی عزت کی حفاظت کرنے اور اس کے لیے لڑنے کو انسان اپنی غیرت کا تقاضہ سمجھتا ہے   اور فاطمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحب زادی اور جنت کی عورتوں کی سردار ’’فاطمہ الزہراء‘‘ (رضی اللہ عنہا) کا نام ہے، ’’حریم فاطمہ‘‘ نام رکھنا جائز ہے،  البتہ اس کی بنسبت صرف فاطمہ نام رکھنا زیادہ بہتر ہے۔

"مِرحة : (معجم الرائد) (اسم) 1- مرحة : النوع من مرح 2- مرحة : أكداس من الزبيب وغيره. المِرْحَةُ : (معجم الوسيط) المِرْحَةُ : الأنبارُ من الزَّبيب ونحوه".

تاج العروس (7/ 113):

مرح : (مَرِحَ، كفَرِحَ: أَشِرَ وبَطِرَ) ، والثلاثةُ أَلفاظٌ مترادفةٌ، وَمِنْه قَوْله تَعَالَى: {بِمَا كُنتُمْ تَفْرَحُونَ فِى الاْرْضِ بِغَيْرِ الْحَقّ وَبِمَا كُنتُمْ تَمْرَحُونَ} (غَافِر: 75) وَفِي المفردَاتِ: المَرَحَ: شِدَّةُ الفَرَحِ والتَّوسُّع فِيهِ. (و) مَرِحَ (: اخْتَالَ) ، وَمِنْه قَوْله تَعَالَى: {وَلاَ تَمْشِ فِى الاْرْضِ مَرَحًا} (الإِسراء: 37) أَي متبختِراً مُخْتَالاً.(و) مَرِحَ مَرَحاً: (نَشِطَ) . فِي (الصِّحَاح) و (الْمِصْبَاح) : المَرَحُ: شِدَّة الفَرَحِ، والنَّشاط حتّى يُجاوِزَ قَدْرَه، (و) مَرِحَ مَرَحاً، إِذَا خَفَّ، قَالَه ابْن الأَثير. وأَمْرَحَه غيرُه. (وَالِاسْم) مرَاحٌ، (ككِتَاب، وَهُوَ مَرِحٌ) ، ككَتِف (ومِرِّيحٌ، كسكِّين، مِنْ) قَوْم (مَرْحَى ومَرَاحَى) ، كِلَاهُمَا جمْع مَرِحٍ، ... (ومَرْحَى) مَرّ ذِكرُه (فِي برح) قَالَ أَبو عمرِو بنُ العلاءِ: إِذا رَمَى الرّجلُ فأَصابَ قيل: مَرْحَى لَه، وَهُوَ تَعجبٌ من جَودةِ رَمْيِه. وَقَالَ أُميّة بن أَبي عَائِذ: يُصِيب القَنيصَ وصِدْقاً يَقُول مَرْحَى وأَيْحَى إِذا مَا يُوالِي وإِذا أَخطأَ قيل لَهُ: بَرْحَى. (و) مَرْحَى: (اسمُ ناقةِ عَبْدِ الله بن الزَّبِيرِ)

تاج العروس (6/ 311):

"(وبَرْحَى) ، على فَعْلَى (: كلمةٌ تُقال عِنْد الخطإِ فِي الرَّمْيِ، ومَرْحَى عِنْد الإِصابة) ، كَذَا فِي (الصّحاح) . وَقد تقدم فِي أَي ح أَنّ أَيْحَى تقال عندِ الإِصابة. وَقَالَ ابْن سَيّده: وللعرب كلمتانِ عِنْد الرَّمْيِ: إِذا أَصابَ قَالُوا: مَرْحَى، وإِذا أَخطأَ قَالُوا: بَرْحَى. مختار الصحاح (ص: 292) م ر ح: (الْمَرَحُ) شِدَّةُ الْفَرَحِ وَالنَّشَاطِ وَبَابُهُ طَرِبَ، فَهُوَ (مَرِحٌ) بِكَسْرِ الرَّاءِ وَ (مِرِّيحٌ) بِوَزْنِ سِكِّيتٍ، وَ (أَمْرَحَهُ) غَيْرُهُ، وَالِاسْمُ (الْمِرَاحُ) بِالْكَسْرِ."

لسان العرب (12/ 125):

"وحُرْمَةُ الرَّجُلِ: حُرَمُهُ وأَهله. وحَرَمُ الرَّجُلِ وحَريمُه: مَا يقاتِلُ عَنْهُ ويَحْميه، فَجَمْعُ الحَرَم أَحْرامٌ، وَجَمْعُ الحَريم حُرُمٌ."

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200811

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں