بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

منی اور مکہ میں اقامت کے احکام


سوال

 8 ذی الحج سے پہلے اگر مکہ میں پندرہ دن پورے نا ہوں تو نماز مکہ میں اور منی مزدلفہ عرفات میں قصر پڑھیں گے اور قربانی سنت ابراہیمی بھی نہیں کریں گے یہ مسئلہ اسی طرح چلا آ رہا ہے ،اب سننے میں یہ آ رہا ہے کہ منی مزدلفہ عرفات جو پہلے مکہ کا حصہ نہیں تھے اب مکہ کی آبادی بڑھ گئی ہے اور منی مزدلفہ عرفات مکہ ہی کے حکم میں ہیں؛ لہذا اب اگر آپ کے 8 ذی الحج سے پہلے اورحج کے 5 دن کے ساتھ پندرہ دن پورے ہو رہے ہیں تو آپ مقیم ہیں، نمازیں بھی پوری پڑھیں گے، اور سنت ابراہیمی والی قربانی بھی کریں گے۔ جدید تحقیق کیا ہے اس بارے میں رہنمائی فرمائیں ۔؟

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ مسئلہ سے متعلق جامعہ کی تحقیق یہی ہے کہ  منی روانگی سے پہلے اگر کسی حاجی کا قیام مکہ مکرمہ میں پندرہ دن یا اس سے زیاد ہ ہو تو منی میں وہ مقیم شمارہوگا اور نماز میں اِتمام کرے گا، اور اگر صاحبِ حیثیت ہو تو قربانی بھی اس پر واجب ہوگی اور اگر منیٰ روانگی تک مکہ مکرمہ میں اس کا قیام پندرہ دن نہ بنتا ہو تو وہ مکہ مکرمہ میں بھی مسافر ہوگا اور منیٰ، مزدلفہ اور عرفات میں بھی مسافر ہوگا، کیوں کہ منی،عرفات، مزدلفہ حدودِ مکّہ سے خارج ہیں،  اس لیے یہ مستقل مواضع شمار ہوں گے، ان سب میں اقامت کے دنوں کو جمع نہیں کیا جائے گامسافر ہونے کی صورت میں اگر امامت کرواتاہے یا تنہا نماز پڑھتاہے تو چار رکعات والی فرض نماز میں قصر کرے گا۔ اور سفر کی وجہ سے عید الاضحٰی کی قربانی واجب نہیں ہوگی، البتہ نفلی طور پر کرنا چاہے تو کرسکتاہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"أو نوى فيه لكن (بموضعين مستقلين كمكة ومنى) فلو دخل الحاج مكة أيام العشر لم تصح نيته لأنه يخرج إلى منى وعرفة فصار كنية الإقامة في غير موضعها وبعد عوده من منى تصح

(قوله فلو دخل إلخ) هو ضد مسألة دخول الحاج الشام فإنه يصير مقيما حكما وإن لم ينو الإقامة وهذا مسافر حكما وإن نوى الإقامة لعدم انقضاء سفره ما دام عازما على الخروج قبل خمسة عشر يوما أفاده الرحمتي."

(کتاب الصلوۃ , باب صلوۃ المسافر جلد 2 ص: 126 ط: دارالفکر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وذكر في كتاب المناسك أن الحاج إذا دخل مكة في أيام العشر ونوى الإقامة خمسة عشر يوما أو دخل قبل أيام العشر ‌لكن ‌بقي إلى يوم التروية أقل من خمسة عشر يوما ونوى الإقامة لا يصح؛ لأنه لا بد له من الخروج إلى عرفات فلا تتحقق نية إقامته خمسة عشر يوما فلا يصح."

(کتاب الصلوۃ , فصل بیان مایصیر المسافر به مقیما جلد 1 ص: 98 ط: دارالکتب العلمیة)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101109

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں