بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 ذو الحجة 1446ھ 14 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

منی حدود مکہ میں شامل ہے؟


سوال

ایک شخص پچیس ذوالقعدہ کو مکہ معظمہ پہنچتا ہے اس نے پچیس ذوالحج تک مکہ مکرمہ میں رہنا ہے سات یا آٹھ ذوالحج کو وہ منی چلا جائے گا اس صورت میں وہ مقیم شمار ہوگا یا مسافر یا منی عرفات مزدلفہ میں قیام تک مسافر شمار ہوگا باقی ایام اگر پندرہ دنوں سے زیادہ ہوں تو مقیم شمار ہوگا؟

جواب

 منیٰ، مکہ  مکرمہ سے ایک علیحدہ مستقل  جگہ ہے،لہذا صورت مسئولہ میں جب  مذکورہ  شخص  کی منی روانگی سے پہلے مکہ میں 15 دن سے کم  ٹھہرنے کی نیت  ہے،تو  یہ  آدمی مسافر شمار ہوگا اور  انفرادی طور پر  قصر نماز پڑھے گا ، اسی طرح منی اور مزدلفہ اور عرفات جانے کی صورت  میں بھی قصر کرے گا ، اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی صورت میں اگر امام مقیم ہے تو پوری نماز پڑھے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"أو نوى فيه لكن (بموضعين مستقلين كمكة ومنى) فلو دخل الحاج مكة أيام العشر لم تصح نيته لأنه يخرج إلى منى وعرفة فصار كنية الإقامة في غير موضعها وبعد عوده من منى تصح الخ

(قوله فلو دخل إلخ) هو ضد مسألة دخول الحاج الشام فإنه يصير مقيما حكما وإن لم ينو الإقامة وهذا مسافر حكما وإن نوى الإقامة لعدم انقضاء سفره ما دام عازما على الخروج  قبل خمسة عشر يوما أفاده الرحمتي."

(کتاب الصلوۃ ، باب صلوۃ المسافر ج2، ص 126، ط : دارالفکر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وذكر في كتاب المناسك أن الحاج إذا دخل مكة في أيام العشر ونوى الإقامة خمسة عشر يوما أو دخل قبل أيام العشر لكن بقي إلى يوم التروية أقل من خمسة عشر يوما ونوى الإقامة لا يصح؛ لأنه لا بد له من الخروج إلى عرفات فلا تتحقق نية إقامته خمسة عشر يوما فلا يصح."

(کتاب الصلوۃ، فصل بیان ما یصیر المسافر به مقیما ،ج1، ص98، ط : دار الکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611102092

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں