بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مہر معجل اور غیر معجل کا حکم


سوال

 ایک بچی کے نکاح کے موقع پر لڑکے والوں کی طرف سے مندرجہ ذیل مہر لکھوایا گیا۔ 10 ہزار روپے معجل ڈھائی تولہ سونے کے زیورات کا سیٹ معجل دو لاکھ روپے غیر معجل 10 ہزار روپے نکاح کے فورا بعد لڑکی کو ادا کر دیے گئے۔ جبکہ سونے کا سیٹ بھی حوالے کر دیا گیا۔ چونکہ سونے کا سیٹ کافی عرصہ پہلے خریدا گیا تھا اور خریدنے والے کو اس کے وزن کی صحیح مقدار یاد نہ تھی اتفاقاً بعد میں سونے کے سیٹ کی رسید ملی تومعلوم ہوا کہ وہ ڈھائی تولے کے بجائے پونے دو تولے تھا۔ اس کے علاوہ دو لاکھ روپے غیر معجل لڑکی کو ابھی تک ادا نہیں کیے گئے ہیں۔ برائے کرم یہ واضح فرما دیں کہ چونکہ بچی کی ابھی رخصتی نہیں ہوئی تو کیا لکھوائے گئے مہر کے ڈھائی تولے زیورات میں جو کمی ہے اس کو رخصتی سے پہلے پورا کرنا ضروری ہوگا؟ کیا مہر غیر معجل دو لاکھ روپے رخصتی سے پہلے دینے ہوں گے یا جب کبھی بعد میں بھی دیے جا سکتے ہیں یا خاتون کے تقاضا کرنے پر دیے جائیں گے؟

جواب

مہر کی دو قسمیں ہوتی ہیں، ایک معجل اور دوسرا مؤجل، معجل سے مراد وہ مہر ہوتا ہے جس کا ادا کرنا نکاح کے فوری بعد ذمہ میں واجب ہوجاتا ہے اور بیوی کو نکاح کے فوری بعد اس کے مطالبہ کا پورا حق حاصل  ہوتا ہے، جب کہ مؤجل سے مراد وہ مہر ہوتا ہے جس کی ادائیگی نکاح کے بعد فوری واجب نہ ہو، بلکہ اس کی ادائیگی کے لیے کوئی خاص میعاد (وقت) مقرر کی گئی ہو یا اس کی ادائیگی کو مستقبل میں بیوی کے مطالبے پر موقوف رکھا گیا ہو،  اگر کوئی خاص میعاد مقرر کی گئی ہو تو بیوی کو اس مقررہ وقت کے آنے سے پہلے اس مہر کے مطالبے کا حق نہیں ہوتا، اور اگر بیوی کے مطالبہ پر موقوف رکھا گیا ہو تو بیوی جب بھی مطالبہ کرے گی اس وقت شوہر کے ذمہ یہ مہر ادا کرنا لازم ہوجائے گا۔

لہذا  صورت مسئولہ میں جو  مہر معجل ہے اس میں سے جو ادا کر دیا ہے وہ تو ادا ہو گیا ہے، اور باقی ہے یعنی: ڈھائی تولہ میں سے جو کم ہے اس کی ادائیگی تو رخصتی کے وقت لازم ہے، اور جو دو لاکھ روپے غیر معجل ہے اس کی ادائیگی کی جو مدت مقرر ہو اس سے پہلے مطالبے کا حق نہیں ہے۔ اور جب مدت پوری ہو جائے تو پھر نہ دینے کی صورت میں مطالبہ کا حق ہو گا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے

"وإن بينوا قدر المعجل يعجل ذلك، وإن لم يبينوا شيئاً ينظر إلى المرأة وإلى المهر المذكور في العقد أنه كم يكون المعجل لمثل هذه المرأة من مثل هذا المهر فيجعل ذلك معجلاً ولايقدر بالربع ولا بالخمس وإنما ينظر إلى المتعارف، وإن شرطوا في العقد تعجيل كل المهر يجعل الكل معجلاً ويترك العرف، كذا في فتاوى قاضي خان ... ولو قال: نصفه معجل ونصفه مؤجل كما جرت العادة في ديارنا ولم يذكر الوقت للمؤجل اختلف المشايخ فيه قال بعضهم: لايجوز الأجل ويجب حالاً، وقال بعضهم: يجوز ويقع ذلك على وقت وقوع الفرقة بالموت أو بالطلاق، وروى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - ما يؤيد هذا القول، كذا في البدائع.لا خلاف لأحد أن تأجيل المهر إلى غاية معلومة نحو شهر أو سنة صحيح، وإن كان لا إلى غاية معلومة فقد اختلف المشايخ فيه، قال بعضهم: يصح وهو الصحيح وهذا؛ لأن الغاية معلومة في نفسها وهو الطلاق أو الموت ألا يرى أن تأجيل البعض صحيح، وإن لم ينصا على غاية معلومة، كذا في المحيط. وبالطلاق الرجعي يتعجل المؤجل ولو راجعها لايتأجل، كذا أفتى الإمام الأستاذ، كذا في الخلاصة".

(الباب السابع في المهر، الفصل الحادي عشر في منع المرأة نفسها بمهرها والتأجيل في المهر، ج: 1، صفحه: ۳۱۸، ط: دار الفکر- بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100619

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں