بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میزان بینک سے قسطوں پر گھر خریدنا


سوال

بندہ میزان بینک سے قسطوں پر ایک مکان خرید رہا ہے جس کی تفصیل و شرائط درج ذیل ہیں :

1.اس عقد میں مکان کو پسند تو مشتری کرے گا ، مگر خریداری اور اس کے تمام متعلقات و ادائیگی بینک خود کر لے گا اور عند العقد خریدار اور بینک کا متعلقہ سارا عملہ موجود رہے گا۔

2. کل قسطوں کی مدت 20 سال ہے اور ہر مہینہ ایک مخصوص مقدار ادائیگی ہوتی رہے گی ، مگرجس مہینہ وقت مقرر پر ادائیگی نہیں ہوسکی تو اس پر مخصوص مقدار کا جرمانہ بھی بھرنا ہوگا، مگر بینک یہ کہہ رہا ہے کہ یہ جرمانہ نہیں، بلکہ خیرات ہے اور اسے وفاق سے ملحق کسی مدرسے میں آپ ہی جمع کرادیں۔

3. بازاری قیمت سے کچھ اضافہ دینا ہوگا جو کہ پہلے 5 سال 5 فیصد ، اگلے  پانچ سال میں 7 فیصد اس کے بعد 11 فیصد ہے۔

4. اگر بالفرض مشتری عاجز ہو تو عقد فسخ ہوگا، مشتری کو اس کے پیسے اور بائع کو مکان واپس کیا جائے گا۔

5. اگر مشتری یک مشت مکمل پیسوں کی ادائیگی پر قدرت رکھ کر نقد سارے پیسے حوالہ کر دے تو اس پر کوئی اضافی رقم لازم نہ ہوگی، صرف بازاری قیمت کی ادائیگی کر ے گا ۔

6. قیمت من عند العقد متعین ہوگی ، ٹوٹل قیمت کی تعیین ہوگی ، اختیاری صورتیں نہیں ہے کہ پہلے ادا کرے تو کم بعد میں ادا کرے تو زیادہ۔

جواب

ہماری معلومات کے مطابق میزان بینک یا دیگر اسلامک بینکوں سے قسطوں پر مکان خریدنے میں عموماً مندرجہ ذیل قباحتیں پائی جاتی ہیں:

1.پہلی قباحت یہ ہے کہ بینک سے خریدنے والے اور بینک کے درمیان معاہد ہ کے تحت  دو عقد ہوتے ہیں ، ایک بیع(خرید وفروخت )اور دوسرا اجارہ(کرایہ داری )کا عقدہوتاہے ، اور یہ طے پاتاہے  کہ اقساط میں سے اگر کو ئی قسط وقتِ مقررہ پر جمع  نہیں کرائی گئی  تو خریداربینک کی جانب سے مقررہ جرمانہ اداکرنے کا پابند ہوگا جوکہ شرعاً جائزنہیں ہے ، جُرمانہ جس نام عنوان سے لیاجائے،  وہ ناجائز ہے۔

2.دوسری قباحت یہ ہے  کہ بینک  سے قسطوں پر خریدتے وقت  دو عقد   بیک وقت  ہوتے ہیں ، ایک عقد بیع کا ہوتاہے جس کی بناپر قسطوں   کی  شکل میں  ادائیگی  خریدار پر واجب ہو تی ہے اور اسی کے ساتھ  ہی اجارے    کابھی معاہدہ ہوتاہے  جس کی بناپر  ہر ماہ  کر ائے کی مد میں بینک  خریدار سے کرایہ بھی وصول کرتاہے اور یہ دونوں عقد ایک ساتھ ہی کیے جا تے ہیں جو کہ ناجائز ہے ،یعنی معاہدے کے اندر یہ بات بھی شامل ہوتی ہے کہ جس دن گھر کی مالیت کے بقدر کرایہ پورا ہوجائے گا تواس کے بعد یہ گھر  بینک سےکرایہ پر لینے والے شخص کی ملکیت میں  آجائے گا،تواس طرح ایک ہی وقت میں دو معاملے پائے گئے،جو کہ شرعاً نا جائز ہے،کیونکہ شرعاً ایک معاملہ ختم ہونے سے پہلے دوسرا معاملہ نہیں کیا جاسکتا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس  سے منع فرمایا ہے۔

3.تیسری خرابی یہ ہے کہ  ’’کائی بور‘‘ کے ریٹ کی وجہ سے اصل قیمت میں کمی زیادتی  ہو تی ہےکہ اگر ڈالر کا ریٹ بڑھ جائے تو قیمت ملکی کرنسی میں بڑھ جاتی ہے حالانکہ سوداکرتے وقت جس قیمت پر سودا ہوتا ہے تو سودے کے بعد فروخت کنندہ کی طرف سے اس قیمت میں اضافہ کرنا جائز نہیں ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اولاًتو بینک ازخود یہ مکان خرید کر سائل کو قسطوں پر فروخت نہیں کررہا ہے، بلکہ بینک انتظامیہ کے ساتھ مکان کے انتخاب کا عمل بھی سائل(خریدار) خود ہی انجام دے گا،نیز مکان کی خریداری کے عمل میں دو عقد کا اجتماع اور قسط کی مقررہ وقت پر ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں جُرمانے کا التزام وغیرہ جیسے مفاسد کی وجہ سے میزان بینک سے قسطوں پر گھر خریدنا یا اِس قسم کا معاملہ طے کرنا جائز نہیں ہے۔

یہ بھی ملحوظ رہے کہ سائل کے بیان کردہ نمبر 5 اور 6 میں فرق ہے، نمبر 6 کی رو سے رقم میں کسی قسم کی کمی نہیں ہوگی، جب کہ نمبر 5 کی رو سے بازاری قیمت میں ادائیگی لازم ہوگی، اور بازاری قیمت کم وبیش ہوتی رہتی ہے۔

اِس حوالہ سے مزید تفصیل کے لیے مندرجہ ذیل دو کتابوں  کا مطالعہ مفید رہے گا: 

  1. ’’مروجہ اسلامی بینکاری‘‘ شائع کردہ: مکتبہ بینات جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
  2. ’’غیرسودی بینکاری کا منصفانہ جائزہ‘‘ مؤلفہ:مفتی احمد ممتاز صاحب دامت برکاتہم

حوالہ جات ملاحظہ ہوں:

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ‌بيعتين ‌في ‌بيعة."

(سنن الترمذي، أبواب البيوع: 3/ 525، ط:مطبعة مصطفي البابي)

مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے:

"(المادة 245) :البيع مع ‌تأجيل ‌الثمن وتقسيطه صحيح."

(الكتاب الأول، الباب الثالث، الفصل الثاني، ص:50، ط:نورمحمد كتب خانه)

البحر الرائق میں ہے:

"لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير ‌سبب ‌شرعي."

(کتاب الحدود، فصل في التعزیر:5/ 44، ط:دار الکتاب الإسلامی)

ہدایہ  میں ہے:

"قال (ومن باع ثمرةلم يبد صلاحها أو قد بدا جاز البيع) ؛ لأنه مال متقوم، إما لكونه منتفعا به في الحال أو في الثاني، وقد قيل لا يجوز قبل أن يبدو صلاحها والأول أصح (وعلى المشتري قطعها في الحال) تفريغا لملك البائع، وهذاإذا اشتراها مطلقا أو بشرط القطع (وإن شرط تركها على النخيل فسد البيع) ؛ لأنه شرط لا يقتضيه العقد وهو شغل ملك الغير أو هو صفقة في صفقة وهو إعارة أو إجارة في بيع."

وفی فتح القدیر تحته:

"لأنه إن شرط بلا أجرة فشرط إعارة في البيع أو بأجرة فشرط إجارة فيه."

(كتاب البيوع: 6/ 288، دارالفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وأما شرائط الصحة...ومنها أن لا يكون مؤقتا فإن أقته لم يصح ومنها أن يكون المبيع معلوما والثمن معلوما علما يمنع من المنازعة فبيع المجهول جهالة تفضي إليها غير صحيح."

(كتاب البيوع، الباب الأول :3/ 3، ط:رشيديه)

وفیه ایضاً:

"وإذا زاد في الثمن لا بد أن يقبل الآخر في المجلس حتى ولو لم يقبل وتفرقا بطلت، كذا في الخلاصة."

(کتاب البیوع، الباب السادس عشر :3/ 171، ط:رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505101931

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں