بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میزان بینک سے گاڑی لینے اور کفالہ اکاؤنٹ کھولنے کا حکم


سوال

میزان بینک سے کار  (گاڑی)  لینا یا کفالہ  اکاؤنٹ کھولنے  کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

میزان بینک سمیت کسی بھی مروجہ اسلامی بینک سے قسطوں پر گاڑی لینا جائز نہیں ہے، کیوں کہ مروجہ اسلامی بینکوں کا قسطوں پر گاڑی دینے کا معاملہ مکمل شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہے؛ بلکہ اس معاملہ میں متعدد شرعی احکام کی خلاف ورزی لازم آتی ہے، مثلاً: مروجہ اسلامی بینکوں  سے قسطوں پر گاڑی خریدتے وقت  بیک وقت دو عقد وقت ہوتے ہیں، ایک عقد بیع کا ہوتا ہے جس کی بنا پر قسطوں کی شکل میں ادائیگی خریدار پر واجب ہوتی ہے اور اسی کے ساتھ ہی (اجارہ) کرائے کا معاہدہ بھی ہوتا ہے، جس کی بنا پر ہر ماہ کرائے کی مد میں بینک خریدار سے کرایہ بھی وصول کرتا ہے، اور یہ دونوں عقد صورۃً یا حکمًا ایک ساتھ ہی کیے جاتے ہیں، جب کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک عقد کی تکمیل سے پہلے اس عقد میں دوسرا عقد  داخل کرنے سے منع فرمایا ہے، اسی طرح ایک عقد کے لیے دوسرے عقد کو شرط قرار دینا بھی شرعًا ممنوع ہے ، اس  لیے یہ طریقہ بھی  شرعی اصولوں پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے ناجائز   اور سودی قرضہ کا ایک ناجائز متبادل ہے۔تفصیلی معلومات کے لیے ہماری کتاب ’’مروجہ اسلامی بینکاری‘‘ کا مطالعہ مفید رہے گا۔

جس طرح مروجہ انشورنس کا نظام سود اور جوے (قمار) کا مجموعہ ہونے کی وجہ سے شرعا ناجائز ہے اسی طرح انشورنس کا غیر شرعی متبادل جو ’’تکافل‘‘ یا ’’کفالہ‘‘ کے نام سے متعارف کروایا گیا ہے وہ بھی متعدد شرعی اصولوں سے متصادم ہونے اور متعدد شرعی احکام کی خلاف ورزی پر مشتمل ہونے کی وجہ سے شرعا ناجائز ہے، اس  لیے میزان بینک یا کسی بھی مروجہ غیر سودی بینک میں ’’کفالہ اکاؤنٹ‘‘ کھلوانا جائز نہیں ہے۔

  تفصیل کے لیے درج ذیل لنک میں موجود تفصیلی فتوی ملاحظہ فرمائیے:

پاک قطر تکافل کی پالیسی خریدنا اور اس ادارے میں ملازمت کرنے کا حکم

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"وعلى أن النهي عن أكل مال الغير معقود بصفة وهو أن يأكله بالباطل، وقد تضمن ذلك أكل أبدال العقود الفاسدة كأثمان البياعات الفاسدة."

(باب التجارات وخیار البیع (3/128)،ط.دار إحياء التراث العربي - بيروت، تاريخ الطبع: 1405)

حدیث مبارک میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: نهی رسول الله صلي الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة". (رواه مالك و الترمذي و ابوداؤد و النسائي)

"و عن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده قال: نهی رسول الله صلي الله عليه وسلم عن بيعتين في صفقة واحدة. رواه في شرح السنة.»".

مسلم شریف میں ہے:

"عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ» ، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»".

(الصحیح لمسلم، 3/1219، کتاب المساقات،دار احیاء التراث ، بیروت)

(مشکاۃ المصابیح،  باب الربوا، ص: 243، قدیمی)

      مشكاة المصابيح  میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الربا سبعون جزءًا أيسرها أن ینکح الرجل أمه»."

 (1/246، باب الربوا ، ط؛ قدیمی)

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة». وفي الباب عن عبد الله بن عمرو، وابن عمر، وابن مسعود: «حديث أبي هريرة حديث حسن صحيح»، والعمل على هذا عند أهل العلم، وقد فسر بعض أهل العلم قالوا: بيعتين في بيعة أن يقول: أبيعك هذا الثوب بنقد بعشرة، وبنسيئة بعشرين، ولايفارقه على أحد البيعين، فإذا فارقه على أحدهما فلا بأس إذا كانت العقدة على أحد منهما ... وهذا يفارق عن بيع بغير ثمن معلوم، ولايدري كل واحد منهما على ما وقعت عليه صفقته..."

( سنن الترمذي  لمحمد بن عيسى بن سَوْرة الترمذي:أبواب البيوع، باب ماجاء في النهي عن بیعتین في بیعة، ج:۳،ص:۵۲۵،رقم: ۱۲۳۱،ط: مصطفى البابي الحلبي – مصر)

" إن الحلال بين وإن الحرام بين وبينهما مشتبهات لا يعلمهن كثير من الناس فمن اتقى الشبهات استبرأ لدينه وعرضه ومن وقع فى الشبهات وقع فى الحرام كالراعى يرعى حول الحمى يوشك أن يرتع فيه ألا ! وإن لكل ملك حمى ألا وإن حمى الله محارمه."

(أخرجه مسلم في«باب أخذ الحلال وترك الشبهات» (5/ 50) برقم (4178)، ط. دار الجيل  بيروت)

ترجمہ: بے شک حلال ظاہر ہے اور حرام ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان مشتبہ چیزیں ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے، پس جس شخص نے مشتبہ چیزوں سے پرہیز کیا اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو پاک ومحفوظ کر لیا ، اور جو شخص مشتبہ چیزوں میں مبتلا ہوا وہ حرام میں مبتلا ہو گیا، اور اس کی مثال اس چرواہے کی سی ہے جو ممنوعہ چراگاہ کی مینڈ پر چراتا ہے، قریب ہے کہ اس کے جانور اس ممنوعہ چرا گاہ میں گھس کر چرنے لگیں، جان لو ہر بادشاہ کی ممنوعہ چراگاہ ہوتی ہے اور یاد رکھو اللہ تعالیٰ کی ممنوعہ چراگاہ حرام چیزوں ہیں۔

عمدۃ القاری ميں ہے:

"وقال الخطابي: كل شيء يشبه الحلال من وجه والحرام من وجه هو شبهة والحلال اليقين ما علم ملكه يقينا لنفسه والحرام البين ما علم ملكه لغيره يقينا والشبهة ما لايدري أهو له أو لغيره فالورع اجتنابه ثم الورع على أقسام واجب كالذي قلناه ومستحب كاجتناب معاملة من أكثر ماله حرام ومكروه كالاجتناب عن قبول رخص الله والهدايا."

(«كتاب البیوع »«باب تفسير المشبهات» (11/236)،ط. دارالكتب العلمية. الطبعة الاولى: 1421ه)

اعلاء السنن میں ہے:

"قال ابن المنذر: أجمعوا على أن المسلف إذا شرط على المستسلف زیادة أو ھدیة  فأسلف على ذلك إن أخذ الزیادة علی ذلك ربا".

(14/513، باب کل قرض جرّ منفعة، کتاب الحوالة، ط: إدارۃ القرآن)

و في المبسو ط للسرخسي:

"وإذا عقدالعقد على أنه إلى أجل كذا بكذا وبالنقد بكذا أو قال: إلى شهر بكذا أو إلى شهرين بكذا فهو فاسد؛ لأنه لم يعاطه على ثمن معلوم ولنهي النبي صلى الله عليه وسلم عن شرطين في بيع، وهذا هو تفسير الشرطين في بيع ومطلق النهي يوجب الفساد في العقود الشرعية، وهذا إذا افترقا على هذا فإن كان يتراضيان بينهما ولم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم، وأتما العقد عليه فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد ... الخ"

(کتاب البیوع، باب البیوع الفاسدة، ج:۱۳، ص:۸، ط:دارالمعرفة) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201495

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں