بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو الحجة 1446ھ 05 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

شوہر اور بھائی کے درمیان ترکے کی تقسیم


سوال

میری چھوٹی بہن جو کہ شادی شدہ تھی اس کا انتقال ہوگیا ہے، اس کی کوئی اولاد نہیں تھی، صرف ایک لے پالک بچی تھی جس کی شادی ہوچکی ہے، بہنوئی نے بھی دوسری شادی کرلی ہے، مرحومہ کے ورثا میں شوہر اور ایک بھائی یعنی میں ہوں  اور ایک لے پالک بیٹی ہے، سوال یہ ہے کہ میری بہن کی ملکیت میں جو سونا اور سامان تھا وہ اب شرعی طور پر کس کی ملکیت ہوگا، نیز جو سونا شوہر کی طرف سے ان کو ملا تھا وہ کس کی ملکیت ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مرحومہ بہن کی ملکیت میں جو سونا اور سامان تھا وہ  اب ان کا ترکہ ہے اور اس میں مرحومہ کے ورثاء یعنی شوہر اور بھائی کا میراث کے ضابطے کے مطابق حق و حصہ ہے، اسی طرح مرحومہ کو شوہر کی طرف سے جو سونا بطورِ ہبہ مالک بنا کر قبضہ سمیت دیا گیا تھا وہ سونا بھی مرحومہ کا ترکہ ہے اور اس میں بھی مرحومہ کے دونوں وارثوں (شوہر اور بھائی) کا حق و حصہ ہے، مرحومہ کی لے پالک بیٹی مرحومہ کی وارث نہیں ہے اس لیے مرحومہ کے ترکے میں سے لے پالک بیٹی کو کوئی حصہ نہیں ملے گا، مرحومہ کے ترکے کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ  سب سے پہلے مرحومہ کی کُل جایئداد منقولہ و غیر منقولہ یعنی مرحومہ کے کل  ترکہ میں سےاگر ان کے ذمہ کوئی قرضہ ہو تو اسے ادا کرنے کے بعد اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے باقی ترکہ کے ایک تہائی حصہ میں سے نافذ کرنے کے بعد باقی کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ دو حصوں میں تقسیم کر کے  ایک حصہ مرحومہ کے شوہرکو اور ایک حصہ مرحومہ کے بھائی کو دیا جائے گا یعنی کل ترکے میں سے آدھا حصہ مرحومہ کے شوہر کو اور آدھا حصہ مرحومہ کے بھائی کو ملے گا۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت:2

شوہربھائی
11

فیصد کے اعتبار سے 50 فیصد مرحومہ کے شوہر کو اور 50 فیصد مرحومہ کے بھائی کو ملے گا۔

نوٹ: مرحومہ کی تجہیز و تکفین کے اخراجات شوہر یعنی آپ کے ذمہ ہوں گے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(واختلف في الزوج والفتوى على وجوب كفنها عليه) عند الثاني (وإن تركت مالا) خانية ورجحه في البحر بأنه الظاهر لأنه ككسوتها."

(كتاب الصلاة ،باب صلاة الجنازة، 2/ 206، ط:سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وأما الاثنان من السبب فالزوج والزوجة فللزوج النصف عند عدم الولد وولد الابن، والربع مع الولد أو ولد الابن وللزوجة الربع عند عدمهما والثمن مع أحدهما، والزوجات والواحدة يشتركن في الربع والثمن وعليه الإجماع، كذا في الاختيار شرح المختار." 

(كتاب الفرائض،الباب الثاني في ذوي الفروض،ج:6/ 450، ط: رشيدية)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وهم كل من ليس له سهم مقدر ويأخذ ما بقي من سهام ذوي الفروض وإذا انفرد أخذ جميع المال، كذا في الاختيار شرح المختار.فالعصبة نوعان: نسبية وسببية، فالنسبية ثلاثة أنواع: عصبة بنفسه وهو كل ذكر لا يدخل في نسبته إلى الميت أنثى وهم أربعة أصناف: جزء الميت وأصله وجزء أبيه وجزء جده، كذا في التبيين فأقرب العصبات الابن ثم ابن الابن وإن سفل  وإن سفل ثم الأب ثم الجد أب الأب وإن علا، ثم الأخ لأب وأم، ثم الأخ لأب ثم ابن الأخ لأب وأم."

(كتاب الفرائض،الباب الثالث في العصبات،ج: 6/ 451، ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611100756

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں