بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ماضی میں فوت شدہ نمازیں توبہ سے معاف ہوجائیں گی یا قضا پڑھنا لازم ہے؟ قضا عمری کا طریقہ


سوال

اگر ایک فرد نے زندگی میں زیادہ تر نمازیں چھوڑیں ہیں اور اس کو یاد بھی نہیں کہ  کتنی چھوڑ چکا ہے تو  کیا اللہ سے معافی مانگ کر آئندہ تمام نمازیں پڑھ لینے سے اس کی پچھلی تمام نمازوں کی معافی ہو سکتی ہے یا تمام نمازیں پڑھنی ضروری ہیں؟ اگر لازم پڑھنی ہوں تو تمام نمازوں کی رکعتوں کو اندازً جمع کیا جائے تو کچھ  چالیس ہزار کے قریب رکعتیں چھوڑی ہوئی بن رہی ہوں تو  اُن کو پڑھنے کا آسان طریقہ کار کیا ہے؟ اور کیاپھر تمام چھوڑی ہوئی رکعتیں پڑھ لینے سے معافی قبول ہوجاتی ہے؟

جواب

جس شخص نے زمانہ ماضی میں غفلت کی بنا پر بہت سی نمازیں قضا کی ہوں تو اس کو چاہیے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حضور سچے دل سے اس جرم عظیم پر توبہ و استٖغفار کرے اور آئندہ کے لیے پکا عزم کرے کہ اب کوئی بھی نماز جان بوجھ کر قضا نہیں کرے گا، توبہ کرنے کے بعد گزشتہ فوت شدہ نمازوں کی قضا پڑھنا بھی لازم ہے، صرف توبہ کرلینے سے فوت شدہ نمازیں ذمہ سے معاف نہیں ہوں گی،  اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسا کہ اگر کسی نےچوری، ڈاکا یا دوسروں کے مال پر ناجائز قبضہ کے گناہ کا ارتکاب کیا ہو تو صرف توبہ کرنے سے لوگوں کے حقوق اس کے ذمہ سے معاف نہیں ہوں گے، بلکہ توبہ کے ساتھ  ساتھ لوگوں سے غصب کردہ اشیاء بھی واپس کرنی پڑتی ہیں تب ہی توبہ کامل ہوتی ہے، اسی طرح پنج وقتہ نماز بھی اللہ رب العزت کا بندہ پر قرض ہے جو وقت پر ادا نہ کرنے کی صورت میں ذمہ پر واجب الادا رہتا ہے، اس لیے توبہ کی تکمیل کے لیے قضا نمازوں کا پڑھنا بھی لازم ہے۔

اگر کسی شخص کو  متعین طور پر قضا شدہ نمازوں  کی تعداد معلوم نہ ہو  اور  یقینی حساب بھی ممکن نہ ہو   تو  غالب گمان کے مطابق ایک اندازا  اور تخمینہ لگالیں اورجتنے سالوں یامہینوں کی نمازیں قضا  ہوئی ہیں احتیاطاً  اس تعداد سے کچھ  بڑھا کر اُسے کہیں لکھ کر رکھ لیں، اس کے بعد فوت شدہ نمازیں قضا  کرنا شروع کردیں،  قضا صرف فرض اور وتر نمازوں کی ہوتی ہے، لہٰذا جس وقت کی نماز فوت ہوئی ہو  اس کو قضا  کرتے وقت صرف فرض رکعتیں (اور عشاء میں فرض کے ساتھ  صرف وتر) قضا  کرنا ہوں گی،   فجر کی قضا دو رکعت ، ظہر اور عصر کی چار، چار اور مغرب کی تین رکعتیں ہوں گی، عشاء کی نماز قضا  کرتے ہوئے چار فرض اور تین وتر کی قضا  کرنا  ہوگی، اور جمعہ کی نماز کی جگہ ظہر کی فرض نماز قضا کرنی ہوگی۔ 

پھر اگر متعینہ طور پر قضا نماز کا دن اور وقت معلوم نہ ہو نے کی وجہ سے متعینہ نماز کی نیت کرنا  مشکل ہو تو اس طرح  نیت کی جاسکتی ہے کہ مثلاً جتنی فجر کی نمازیں میں نے قضا   کی ہیں ان میں سے پہلی  فجر کی نماز ادا کر رہا ہوں یا مثلاً جتنی ظہر  کی نمازیں قضا  ہوئی ہیں ان میں سے پہلی ظہر  کی نماز ادا کر رہا ہوں، اسی طرح بقیہ نمازوں میں بھی نیت کریں ، اسی طرح پہلی کے بجائے اگر آخری کی نیت کرے تو بھی درست ہے، یعنی یوں نیت کرلے کہ سب سے آخر میں جو فجر قضا ہوئی ہے وہ پڑھ رہاہوں۔

ایک دن کی تمام فوت شدہ نمازیں یا کئی دن کی فوت شدہ نمازیں ایک وقت میں پڑھ لیں، یہ بھی درست ہے۔  نیزایک آسان صورت فوت شدہ نمازوں کی ادائیگی کی یہ بھی ہے کہ ہر وقتی فرض نمازکے ساتھ اس وقت کی قضا  نمازوں میں سے ایک پڑھ لیاکریں، (مثلاً: فجر کی وقتی فرض نماز ادا کرنے کے ساتھ قضا  نمازوں میں سے فجر کی نماز بھی پڑھ لیں، ظہر کی وقتی نماز کے ساتھ ظہر کی ایک قضا  نماز پڑھ لیا کریں)،  جتنے برس یاجتنے مہینوں کی نمازیں قضا ہوئی ہیں اتنے سال یامہینوں تک اداکرتے رہیں، جتنی قضا  نمازیں پڑھتے جائیں اُنہیں لکھے ہوئے ریکارڈ میں سے کاٹتے جائیں، اِس سے ان شاء اللہ مہینہ میں ایک مہینہ کی اور سال میں ایک سال کی قضا  نمازوں کی ادائیگی بڑی آسانی کے ساتھ  ہوجائے گی ۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109200773

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں