بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کے اہل خانہ اور مہمانوں کے کھانے وغیرہ کے انتظام کے لئے قائم مروّجہ کمیٹیوں کا حکم


سوال

ہمارے محلہ میں میت کمیٹی ایک ہے جو کہ تقریبًا بیس یا پچیس( 20 /25)  سالوں سے چل  رہی ہے، کمیٹی چالیس(40) گھرانوں پر مشتمل ہے، اس میں سالانہ فی نکاح چوبیس سو (2400) روپے چندہ کرتے ہیں، اگر کسی کے پاس اس وقت پیسے نہ ہوں، تو اس پر کوئی زبردستی نہیں، جب اس کے پاس پیسے ہوں تو اپنا چندہ جمع کرتا ہے، جب کسی گھر میں فوتگی ہوتی ہے ،تو اس رقم سے اس گھر والوں اور ان کے مہمانوں کا تین(3) دن کا کھانے  پینے کا انتظام کیا جاتا ہے، اور سالن وغیرہ خود محلے والے جمع ہو کر تیارکرتے ہیں، اور محلے دار جو خدمت کے لیے آتے ہیں، وہ بھی کھانا کھا کر جاتے ہیں ،اور اضافی رقم جو سال کے آخر میں  بچتی ہے، اس سے کمیٹی کے لیے پلیٹ چمچ وغیرہ جیسے ضروری سامان لیا جا تا ہے، کبھی اموات زیادہ ہونے کی صورت میں پیسے ختم  ہوجاتے ہیں، تو محلہ دار ہنگامی چندہ کرتے ہیں اور  اگر اس  وقت کسی کے پاس پیسہ نہ ہو تو بھی کوئی زبردستی نہیں، کسی دکان سے راشن یا محلے والے سے نقد ادھار لے کر کام چلا لیتے ہیں، اور بعد میں ادھار چکا دیتے ہیں، کیا یہ  طریقہ درست ہے؟اور کیا محلہ والوں کا اس کھانے سے جو میت کے گھر والوں کے لیے  پکایا گیا ہو کھانا درست ہے؟ اور اگر یہ طریقہ جائز نہیں ہے تو سمجھانے سے کوئی  نہیں مانے گا، پورا محلہ اور قریبی رشتے دار اس طریقے پر خوش ہیں ، اگر کوئی شخص اس کمیٹی سے علیحدہ ہو جائے، تو اس کے گھر میں فوتگی ہو تو کوئی کھانے کے انتظام کے لیے نہیں آئے گا ،کیوں کہ سارا محلہ اور قریب کے رشتہ دار اس کمیٹی میں شامل ہیں،  اس صورت میں کیا کیا جائے؟ تفصیل کے ساتھ  راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

 میت کی اہلِ خانہ اور مہمانوں کے لیے کھانے کا بندوبست کرنے کے لئے کے لیے قائم کمیٹیوں کی شرعی حیثیت کی تفصیل درج ذیل ہے:

آج کل مختلف مقامات پر خاندان اور برادری میں میت کمیٹیاں بنانے کا رواج چل پڑا ہے، اس کمیٹی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کمیٹی کے کسی ممبر کے گھر میں اگر خدانخواستہ موت کا سانحہ پیش آجائے تو اس میت کے گھر والوں اور تعزیت کے لیے  آئے مہمانوں کے لیے کھانے کا بندوبست کرنا بھی اسی کمیٹی کی ذمہ داری شمار ہوتی ہے، اس کمیٹی کا ممبر صرف ایک  خاندان یا برادری یا محلے کے لوگوں کو بنایا جاتا ہے، ممبر بننے کے لیے شرائط ہوتی ہیں، مثلاً یہ کہ ہر ماہ یا ہر سال یا کسی نکاح وغیرہ کے موقع پر ایک مخصوص مقدار میں رقم جمع کرانا لازم ہے، اگر یہ رقم جمع نہ کرائی جائے تو ممبر شپ ختم کردی جاتی ہے، جس کے بعد وہ شخص کمیٹی کی سہولیات سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا، اس طرح کی کمیٹی کا میت کے اہلِ خانہ اور مہمانوں کے کھانے کا خرچہ برداشت کرنے کا  شرعی نکتہ  نگاہ سے حسبِ ذیل تفصیل ہے:

میت کے اہلِ خانہ اور مہمانوں کے کھانے کا خرچہ  میت کے اہلِ خانہ کے لیے کھانے کا انتظام میت کے رشتہ داروں اور ہم سایوں کے لیے مستحب ہے کہ وہ میت کے اہلِ خانہ کے لیے ایک دن اور رات کے کھانے  کا انتظام کریں، کیوں کہ میت کے اہلِ خانہ غم سے نڈھال ہونے اور تجہیز و تکفین میں مصروف ہونے  کی وجہ سے کھانا پکانے کا انتظام نہیں کرپاتے۔ (1)

جیسے کہ غزوۂ موتہ  میں جب نبی کریم ﷺ  کے  چچا زاد بھائی حضرت جعفربن ابی طالب رضی اللہ عنہ شہید ہوئے اور ان کی وفات کی خبر آپ ﷺ  تک پہنچی تو آپ ﷺ  نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانے کا بندوبست کرو، کیوں کہ ان پرایسا شدید صدمہ آن پڑا ہے جس نے انہیں (دیگر اُمور سے) مشغول کردیا ہے۔(2)

میت کے اہلِ خانہ کے علاوہ جو افراد دور دراز علاقوں سے میت کے اہلِ خانہ سے تعزیت اور تکفین و تدفین میں شرکت کے لیے آئے ہوں اگر وہ بھی کھانے میں شریک ہوجائیں تو ان کا شریک ہونا  بھی درست ہے، تاہم تعزیت کے لیے قرب و جوار سے آئے لوگوں کے لیے میت کے ہاں باقاعدہ کھانے کا انتظام کرناخلافِ سنت عمل ہے۔(3)

مروجہ کمیٹیوں کے بظاہر نیک اور ہم دردانہ مقاصد سے ہٹ کر کئی شرعی قباحتیں ہیں:

1: کمیٹی کا ممبر بننے کے لیے ضروری ہے کہ ہر فرد، چاہے امیر ہو یا غریب، ہر ماہ ایک مخصوص رقم کمیٹی میں جمع کرے،اگر وہ یہ رقم جمع نہیں کراتا تو اُسے کمیٹی سے خارج کردیا جاتا ہے، پھر کمیٹی اس کو وہ سہولیات فراہم نہیں کرتی جو ماہانہ چندہ دینے والے ممبران کو مہیا کرتی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کمیٹی کی بنیاد ’’امدادِ باہمی‘‘ پر نہیں، بلکہ اس کا مقصد ہرممبر کو اس کی جمع کردہ رقم کے بدلے سہولیات  فراہم کرنا ہے، یہ سہولیات اس کی جمع کردہ رقم کی نسبت سے کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوسکتی ہیں، یہ معاملہ واضح طور پر قمار (جوا)کے مشابہ ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔ (4)

2:کمیٹی کے ممبران میں سے بعض اوقات غریب و نادارلوگ بھی ہوتے ہیں، جو اتنی وسعت واستطاعت نہیں رکھتے کہ ماہانہ سو روپے بھی ادا کرسکیں، لیکن خاندانی یا معاشرتی رواداری کی خاطر یا لوگوں کی باتوں سے بچنے کے لیے وہ مجبوراً یہ رقم جمع کراتے ہیں، یوں وہ رقم تو جمع کرادیتے ہیں، لیکن اس میں خوش دلی کا عنصر مفقود ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ مال استعمال کرنے والے کے لیے حلال طیب نہیں ہوتا، کیوں کہ حدیث شریف میں ہے کہ کسی مسلمان کا مال دوسرے مسلمان کے لیے صرف اس کی دلی خوشی اور رضامندی کی صورت میں حلال ہے۔(5)

3: بسااوقات اس طریقہ کار میں ضرورت مند اور تنگ دست سے ہم دردی اور احسان کی بجائے اس کی دل شکنی کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ بدسلوکی کا رویہ برتا جاتا ہے، کیوں کہ خاندان کے جو غریب افراد کمیٹی کی ماہانہ یا سالانہ فیس نہیں بھر پاتے انہیں کمیٹی سے خارج کردیا جاتا ہے، اس طرح ان کی حاجت اور ضرورت کے باوجود اُنہیں اس نظم کا حصہ نہیں بنایا جاتا اور پھر موت کے غمگین موقع پر اُسے طرح طرح کی باتوں اور رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

4: اس طریقہ کار میں کھانا کھلانا ایک عمومی دعوت کی شکل اختیار کرجاتا ہے، حال آں کہ مستحب یہ ہے کہ یہ انتظام صرف میت کے گھر والوں کے لیے ہو۔ (6)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر کسی کے ہاں میت ہوجائے تو مستحب یہ ہے کہ میت کے عزیز و اقارب اور پڑوسی مل کر میت کے اہلِ خانہ کے لیے کھانے کا انتظام کریں، نیزاس طرح کی مروجہ کمیٹیوں کے قیام میں شرعاً کئی قباحتیں ہیں، اس سے اجتناب کیا جائے، البتہ اگرمندرجہ بالا قباحتوں سے اجتناب کرتے ہوئے رفاہی انجمن یا کمیٹی قائم کی جائے جس میں مخیر حضرات ازخود چندہ دیں، کسی فردکوچندہ دینے پر مجبور نہ کیا جائے تو اس کی گنجائش ہے، یہ انجمن یا کمیٹی خاندان کے لوگوں کی ضروریات کی کفالت کرے، بے روزگار افراد کے لیے روزگار، غریب و نادار بچیوں کی شادی اور دیگر ضروریات میں ضرورت مندوں کی مدد کرے، ان امور کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ اگریہ کمیٹی یا انجمن خاندان کے کسی فرد کی موت کے بعد اس کی تجہیز و تکفین پر آنے والے اخراجات بھی اپنے ذمہ لے تو یہ درست ہے۔

حوالہ جات مندرجہ ذیل ہیں: 

1: ولا بأس باتخاذ طعام لهم. و في الرد: (قوله: وباتخاذ طعام لهم ) قال في الفتح: ویستحب لجیران أهل المیت والأقرباء الأباعد تهیئة طعام لهم یشبعهم یومهم ولیلتهم‘‘.

( رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الجنائز،ج:2،ص:240، ط:ایچ ایم سعید)

2: حدثنا أحمد بن منیع و علي بن حجر قالا: حدثنا سفیان بن عیینة عن جعفر بن خالد عن أبیه عن عبد اللّٰه بن جعفر قال : لما جاء نعي جعفر قال النبي صلی اللّٰه علیه وسلم: اصنعوا لأهل جعفر طعاماً فإنه قد جاء هم ما یشغلهم. قال أبو عیسی: هذا حدیث حسن صحیح، وقد کان بعض أهل العلم یستحب أن یوجه إلی أهل المیت شيء لشغلهم بالمصیبة وهو قول الشافعي. قال أبو عیسی: و جعفر بن خالد هو ابن سارة وهو ثقة روی عنه ابن جریج‘‘.

(أبواب الجنائز، باب ما جاء في الطعام یصنع لأهل المیت، ج:1،ص:195، ط:قدیمی کتب خانہ)

3: قال في الفتح: ویستحب لجیران أهل المیت والأقرباء الأباعد تهیئة طعام لهم یشبعهم یومهم ولیلتهم؛ لقوله: اصنعوا لآل جعفر طعاماً فقد جاء هم ما یشغلهم. حسنه الترمذي وصحح الحاکم. ولأنه بِرٌّ ومعروف، ویلح علیهم في الأکل؛ لأن الحزن یمنعهم من ذلک فیضعفون الخ. مطلب في کراهة الضیافة من أهل المیت وقال أیضاً ویکره اتخاذ الضیافة من الطعام من أهل المیت؛ لأنه شرع في السرور لا في الشرور وهه بدعة مستقبحة، وروی الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحیح عن جریر بن عبد اللّٰه قال: کنا نعد الاجتماع إلى أهل المیت وصنعهم الطعام من النیاحة الخ‘‘

 ( رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الجنائز، ج: 2،ص:240، ط:ایچ ایم سعید)

4: لأن القمار من القمر الذي یزداد تارةً وینقص أخری وسمي القمار قماراً؛ لأن کلَّ واحد من المقامرین ممن یجوز أن یذهب ماله إلی صاحبه، ویجوز أن یستفید مال صاحبه وهو حرام بالنص‘‘.

(ردالمحتار،  کتاب الحظر و الإباحة، فصل في البیع، ج:6، ص:404، ط:ایچ ایم سعید)

5: عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: کنت آخذاً بزمام ناقة رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه و سلم في أوسط أیام التشریق أذود عنه الناس، فقال: یا أیها الناس! ألا لاتظلموا ، ألا لاتظلموا، ألا لاتظلموا، إنه لایحل مال امرء إلا بطیب نفس منه‘‘.

( مسند أحمد بن حنبل، مسند الکوفیین، حدیث عم أبي حرة الرقاشي، رقم الحدیث:20714، ج:5، ص:72، ط:مؤسس قرطبة القاهرة)

6: وروی الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحیح عن جریر بن عبد اللّٰه، قال: کنا نعد الاجتماع إلى أهل المیت وصنعهم الطعام من النیاحة الخ ‘‘

( رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الجنائز،ج:2،ص:240، ط: ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100954

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں