بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کی طرف سے کی گئی قربانی کے گوشت کا حکم


سوال

اگر کسی میت کی طرف سے قربانی کی گئی ہو یا میت کو ایصالِ  ثواب کے لیے قربانی کی گئی ہوتو کیا اس کا گوشت خود کھا سکتے ہیں؟

جواب

اگر میت نے قربانی کی وصیت کی ہو اور ورثاء اُسی وصیت کی بنا پر قربانی کررہے ہوں  تو یہ قربانی میت کے ایک تہائی ترکے سے کی جاۓ گی اور اس کا گوشت خود کھانا جائز نہیں ہوگا،  بلکہ فقراء کے درمیان تقسیم کرنا ضروری ہوگا ۔

لیکن اگر ورثاءمیں سے کوئی   اپنی خوشی سے میت کے ایصالِ ثواب کے لیے قربانی کر رہاہو تو اس کا ثواب تو میت تک پہنچ جاۓ گا،  البتہ اس قربانی کا گوشت خود بھی کھایا جاسکتا ہے۔ 

چنانچہ فتاویٰ شامی میں ہے:

"من ضحى عن الميت يصنع كما يصنع في أضحية نفسه من التصدق والأكل والأجر للميت والملك للذابح. قال الصدر: والمختار أنه إن بأمر الميت لا يأكل منها وإلا يأكل بزازية."

(كتاب الأضحية، ج:6 / 326، ط:دار الفكر بيروت)

و فيه أيضا:

"(قوله وعن ميت) أي لو ضحى عن ميت وارثه بأمره ألزمه بالتصدق بها وعدم الأكل منها، وإن تبرع بها عنه له الأكل لأنه يقع على ملك الذابح والثواب للميت، ولهذا لو كان على الذابح واحدة سقطت عنه أضحيته كما في الأجناس. قال الشرنبلالي: لكن في سقوط الأضحية عنه تأمل اهـ. أقول: صرح في فتح القدير في الحج عن الغير بلا أمر أنه يقع عن الفاعل فيسقط به الفرض عنه وللآخر الثواب فراجعه."

(كتاب الأضحية، ج:6 / 335، ط:دار الفكر بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201706

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں