بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ماوا، گٹکا کھانے اور اس کو فروخت کرنے کا حکم


سوال

ماوا، گٹکا  کھانا اور اس کا بیچنا کیا جائز ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ گٹکا اور ماوا ( ملحوظ رہے ماوا بھی گٹکے کی اقسام میں سےہے، ماہرین کے مطابق یہ ایک قسم کامصالحہ ہے جس میں جوزتری ،پستہ،لونگ، الائیچی، سرخ مٹی، تیزاب، چونا اور دیگر کیمائی نشہ آور مادےاستعمال  کیے جاتےہیں،اور اس کےاستعمال سے جبڑے ،مسوڑےاور معدہ متاثر ہوتاہےاور منہ کے کینسر کا باعث بنتا ہے،ممکن ہے بعض جگہ یہ اجزاء استعمال نہ کیے جاتے ہوں)، مضرِّ صحت ہونے کی وجہ سے قانونی طور پر  ان دونوں کا کھانا اور بیچنا سخت ممنوع ہے جس پر قانوناً سزا بھی دی جاتی ہے، لہذا حکومتی قانون کی پاسداری اور حفظانِ صحت کا لحاظ کرتے ہوئے گٹکا اور ماوا کھانے اور اس کے بیچنے سے احتراز کرنا چاہیے تاکہ صحت بھی محفوظ رہے اور قانونی خلاف ورزی بھی نہ ہو۔بہرحال اصل مدار مضر صحت ہونے یا نہ ہونے اور قانونا ممانعت اوراجازت پر ہے اور چوں کہ ماواوغیرہ کا مضر صحت ہونا معروف ہےا ور قانونا بھی اس کی ممانعت ہے اس لیے گریز لازم ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"والحاصل أن جواز البیع یدور مع حل الانتفاع".

(باب بيع الفاسد، ج:5، ص:69، ط:ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه في قاعدة: الأصل الإباحة أو التوقف، ويظهر أثره فيما أشكل حاله كالحيوان المشكل أمره والنبات المجهول.

قلت: فيفهم منه حكم النبات الذي شاع في زماننا المسمى بالتتن فتنبه.

 (قوله: ربما أضر بالبدن) الواقع أنه يختلف باختلاف المستعملين ط (قوله: الأصل الإباحة أو التوقف) المختار الأول عند الجمهور من الحنفية والشافعية كما صرح به المحقق ابن الهمام في تحرير الأصول (قوله: فيفهم منه حكم النبات) وهو الإباحة على المختار أو التوقف. وفيه إشارة إلى عدم تسليم إسكاره وتفتيره وإضراره، وإلا لم يصح إدخاله تحت القاعدة المذكورة ولذا أمر بالتنبه.

(كتاب الأشربة، ج:6، ص:460، ط:ایچ ایم سعید)

تفسیر قرطبی میں ہے:

"{ ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة }الآية :195
التقدير لا تلقوا أنفسكم بأيديكم كما تقول : لا تفسد حالك برايك والتهلكة ( بضم اللام ) مصدر من هلك يهلك هلاكا وهلكا وتهلكة أي لا تأخذوا فيما يهلككم
وقال الطبري : قوله ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة عام في جميع ما ذكر لدخوله فيه إذ اللفظ يحتمله،

(سورة البقرة،ج:2،:359،ط:دارالکتب العلمیة)

قرآن مجید میں ہے:

{واوفوا بالعهد فإن العهد کان مسئولا} [الإسراء، رقم الآية:34]

ترجمہ: عہد کو پورا کرو؛ کیوں کہ قیامت کے دن عہد کے بارےمیں انسان جواب دہ ہوگا۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة أنّ رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: آية المنافق: ثلاث إذا حدّث كذب، و إذا وعد أخلف، و إذا أوتمن خان".

(مشکاۃ المصابیح، کتاب الایمان، باب الکبائر وعلامات النفاق، رقم الحدیث:55، ج:1، ص:23،  ط:المکتب الاسلامی)

بدائع الصنائع میں ہے:

"لأنّ طاعة الإمام فيما ليس بمعصية فرض، فكيف فيما هو طاعة؟"

(كتاب السير، فصل فى أحكام البغاة، ج:9، ص :453، ط:دارالحديث. القاهرة)

فقط والله  اعلم


فتوی نمبر : 144206200398

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں