بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

موقوفہ اشیاء کی ضرورت ختم ہوجانے پر ان کا حکم


سوال

ایک دینی مدرسہ کے لیے کچھ افراد نے چٹائیاں،موٹریں،پنکھے اور تپائیاں وغیرہ وقف کی تھیں،قسمت سے وہ مدرسہ چل نہ سکا،اب واقفین کہتے ہیں کہ مدرسہ کے متولی ان اشیاء کو اپنی صواب دید سے جہاں خرچ کرنا چاہیں کرلیں،متولی ان اشیاء کو کہاں کہاں استعمال کرسکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی چیز کو وقف کردینے کے بعد،اس چیز کو بیچنا،ہبہ کرنا یا کرائے وغیرہ پر دینا جائز نہیں ہے،لیکن اگر کسی وقت،ان موقوفہ  اشیاء کی ضرورت باقی نہ رہےتو اب  ان اشیاء کوکسی مدرسہ میں، کہ جہاں پر ان اشیاء کی طلبہ کو ضرورت ہو ،دےدے۔

"قانون العدل والإنصاف لقدري پاشا"میں ہے:

"اختلف فقهاء مذهب الحنفي في حكم وقف المنقول فمنعه أبو حنيفة وأجازه أبو يوسف مطلقا ، وأجازه محمد بن الحسن فيما ورد به العرف أو النص ؛ كوقف السلاح والكراع الذي فعله خالد بن الوليد ، أو كان تبعا للعقار ، ويؤكد الانتفاع به ؛ كوقف الآلات الزراعية التابعة للأرض الموقوفة ؛ وكوقف الحيوانات اللازمة لحرث الأرض الموقوفة ، وزراعتها."

(ص:185،الباب الأول،الفصل السابع،المادة49،ط:دار السلام)

البحر الرائق میں ہے:

"وفي الخانية رجل بسط من ماله حصيرا للمسجد فخرب المسجد ووقع الاستغناء عنه فإن ذلك يكون له إن كان حيا ولورثته إن كان ميتا وإن بلى ذلك كان له أن يبيع ويشتري بثمنه حصيرا آخر وكذا لو اشترى حشيشا أو قنديلا فوقع الاستغناء عنه كان ذلك له إن كان حيا ولورثته إن كان ميتا وعند أبي يوسف يباع ذلك ويصرف ثمنه إلى حوائج المسجد فإن استغنى عنه هذا المسجد يحول إلى مسجد آخر."

(ص:273،ج:5،کتاب الوقف،ط:دارالکتاب الإسلامي)

رد المحتارمیں ہے:

"قوله: ومثله حشيش المسجد إلخ أي الحشيش الذي يفرش بدل الحصر، ... وعلى هذا حصير المسجد وحشيشه إذا استغنى عنهما يرجع إلى مالكه عند محمد وعند أبي يوسف ينقل إلى مسجد آخر، وعلى هذا الخلاف الرباط والبئر إذا لم ينتفع بها اهـ...والمراد بآلات المسجد نحو القنديل والحصير."

(ص:359،ج:4،کتاب الوقف،ط:سعید)

الفتاوی الہندية میں ہے:

"رجل بسط من ماله ‌حصيرا ‌في ‌المسجد فخرب المسجد ووقع الاستغناء عنه فإن ذلك يكون له إن كان حيا ولوارثه إن كان ميتا. وعند أبي يوسف - رحمه الله تعالى - يباع ويصرف ثمنه إلى حوائج المسجد فإن استغنى عنه هذا المسجد يحول إلى مسجد آخر."

(ص:458،ج:2،کتاب الوقف،الباب الحادي عشر،دار الفكر،بيروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144410100172

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں