بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسنون اعتکاف میں غسل کرنا


سوال

اعتکاف کا پہلا دن تھا  اور مجھے بالکل علم نہیں تھا کہ اعتکاف والے کو غسل نہیں  کرنا ہوتا، لیکن میں نے غسل کر لیا غلطی سے۔ بعد میں معلوم ہوا    تو اس بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اعتکاف کے دوران معتکف کے لیے  طبعی یا شرعی ضرورت کے بغیر  مسجد سے باہر نکلنا جائز نہیں ہے، گرمی کی وجہ سے ٹھنڈک حاصل کرنے  کے لیے یا محض صفائی  ستھرائی کے لیے  غسل نہ طبعی ضرورت میں شامل ہے اور نہ ہی شرعی ضرورت میں، لہذا مسنون اعتکاف میں  جنابت کے غسل کے علاوہ کسی اور غسل کے لیے مسجد سے باہر نکلنے کی صورت میں اعتکاف فاسد ہوجاتا ہے۔

صورتِ مسئولہ میں  مسنون اعتکاف میں   اگر سائل نے مسجد سے باہر غسل خانہ میں  جاکر ٹھنڈک وغیرہ کے حصول کے لیے  غسل کیا تو   اس کا مسنون اعتکاف ختم ہوگیا ہے، البتہ باقی دن نفلی اعتکاف شمار ہوجائیں گے۔

نیز  سنت اعتکاف ٹوٹنے کی صورت میں ایک دن ایک رات کی قضا لازم ہے،  جس کا طریقہ یہ ہےکہ ایک دن، رات روزے کے ساتھ  مسجد میں اعتکاف کرے، خواہ رمضان میں کرے یا رمضان کے بعد، یعنی غروبِ آفتاب سے پہلے مسجد چلا جائے اور اگلے دن روزہ رکھے اور پھر غروبِ آفتاب کے بعد واپس آجائے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وحرم عليه) أي على المعتكف اعتكافا واجبا ... (الخروج إلا لحاجة الإنسان) طبيعية كبول وغائط وغسل لو احتلم ولا يمكنه الاغتسال في المسجد كذا في النهر (أو) شرعية كعيد وأذان لو مؤذنا وباب المنارة خارج المسجد.

(قوله وحرم إلخ) لأنه إبطال للعبادة وهو حرام - {ولا تبطلوا أعمالكم} [محمد: 33]- ... (قوله وغسل) عده من الطبيعية تبعا للاختيار والنهر وغيرهما وهو موافق لما علمته من تفسيرها وعن هذا اعترض بعض الشراح تفسير الكنز لها بالبول والغائط بأن الأولى تفسيرها بالطهارة ومقدماتها ليدخل الاستنجاء والوضوء والغسل لمشاركتها لهما في الاحتياج وعدم الجواز في المسجد اهـ فافهم".

(کتاب الصوم، باب الاعتکاف، 2/ 444، ط: سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"فيظهر من بحث ابن الهمام لزوم الاعتكاف المسنون بالشروع وإن لزوم قضاء جميعه أو باقيه مخرج على قول أبي يوسف أما على قول غيره فيقضي اليوم الذي أفسده لاستقلال كل يوم بنفسه".

(کتاب الصوم، باب الاعتکاف، 2/ 444، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509102214

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں