بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں درس و تدریس کا حکم


سوال

مسجد میں مدرسہ مکتب کا نظام قائم کرنا ، درسِ قرآن ، درسِ حدیث دینا کیسا ہے ؟ کیا ذکرو تلاوت میں تعلیم ِقرآن ودین شامل ہے ؟ 

جواب

کتبِ فقہ میں لکھا ہے کہ مسجد میں بلاضرورت درس وتدریس کاکام کرنا مکروہ ہے اور ضرورت کی وجہ سے مسجد کے اندر تعلیم و تعلم کی اجازت ہے، فقہاءِ کرام نے یہ بھی لکھا ہے کہ گرمی سے بچنے کے لیے ضرورۃً مسجد میں درس دینا بلاکراہت جائز ہے، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر دینی تعلیم اور قرآنِ کریم کی تعلیم کے لیے کوئی جگہ نہ ہو تو  مسجد میں تعلیم دینا بھی ایک اہم ترین ضرورت ہے۔ البتہ فتاویٰ بزازیہ میں اس بات کہ بھی صراحت ملتی ہے کہ مسجد میں اجرت اور فیس لے کر درس دینا مکروہ ہے۔  پس  دینی تعلیم کے لیے مسجد کے علاوہ جگہ میسر نہیں ہے تو بلااجرت مسجد میں بچوں کو پڑھانے میں کوئی حرج نہیں۔مسجد میں بچوں کو امام کے علاوہ کوئی شخص بھی اسی شرط کے مطابق پڑھاسکتا ہے، البتہ ایسا انتظامیہ کی اجازت سے ہونا چاہیے۔

"وتعلیم الصبیان فیه بلاأجر و بالأجر یجوز".

( البزازیة: کتاب الکراهیة، الفصل الأول، نوع في المسجد، ( 3/ 201)  ط:  زکریا جدید) 

"معلم الصبیان بأجر لو جلس فیه لضرورة الحر لا بأس به، وکذا التعلیم إن بأجر کره إلا للضرورة، وإن حسبة لا".

( البزازیة: (۱/  ۵۵  )  ط:  زکریاجدید) 

"ویکره أن یخیط في المسجد؛ لأنه أعد للعبادة دون الاکتساب، کذا الوراق والفقیه إذا کتب بأجرة، وأما المعلم إذا علم الصبیان بأجرة، وإن فعلوا بغیر أجرة فلا بأس به".

(الفتاوی الخانیة:  کتاب الطهارة، فصل في المسجد، ( 1/ 43) ط: زکریا جدید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100066

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں