بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں امام یا مؤذن یا خادم کے رہنے کا حکم


سوال

کیا مسجد میں امام اور موذن یا خادم رہ سکتے ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  اگر ضرورت کے وقت عارضی طور پر امام یامؤذن یا خادم کے بیٹھنے یا آرام کرنے کے لیے مسجد کی چھت یا  تہہ خانہ یا ایسی جگہ جو مسجد کے حدود میں داخل ہو مگر وہاں نماز نہیں پڑھی جاتی ہو تو  وہاں ان کے لیے کمرہ بنادیا جائے تو ایسا کرنا جائز ہے، بشرطیکہ مسجد کے تقدس و آداب کا خیال رکھا جائے، عام طور پر امام، مؤذن، خادم وغیرہ کے گھر یا کمرے شرعی مسجد کی حدود سے باہر بنائے جاتے ہیں،  مثلاً وضو خانہ کے اوپر یا کسی اورخارجی جگہ  پر، اگر شرعی مسجد کے حدود سے باہر امام، مؤذن، خادم کے لیے رہائش  کا انتظام کیا گیا ہو تو ایسا کرنا درست ہے اور امام، مؤذن، خادم کے لیے اس میں رہائش رکھنا  بھی درست ہے۔

"البحر الرائق " میں ہے:

"حاصله: أن شرط كونه مسجداً أن يكون سفله وعلوه مسجداً؛ لينقطع حق العبد عنه؛ لقوله وتعالى: ﴿وَاَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّٰهِ﴾ [الجن: 18] بخلاف ما إذا كان السرداب أو العلو موقوفاً لمصالح المسجد، فإنه يجوز؛ إذ لا ملك فيه لأحد، بل هو من تتميم مصالح المسجد، فهو كسرداب مسجد بيت المقدس، هذا هو ظاهر المذهب، وهناك روايات ضعيفة مذكورة في الهداية، وبما ذكرناه علم أنه لو بنى بيتاً على سطح المسجد لسكنى الإمام، فإنه لا يضر في كونه مسجداً؛ لأنه من المصالح، فإن قلت: لو جعل مسجداً ثم أراد أن يبني فوقه بيتاً للإمام أو غيره، هل له ذلك؟ قلت: قال في التتارخانية: إذا بنى مسجداً، وبنى غرفةً وهو في يده، فله ذلك، وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس، ثم جاء بعد ذلك يبني، لا يتركه. وفي جامع الفتوى: إذا قال: عنيت ذلك، فإنه لا يصدق".

(کتاب الوقف، فصل فی أحکام المسجد، ج:5، ص:271، ط: دارالکتاب الإسلامی)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وإذا جعل تحته سرداباً لمصالحه) أي المسجد (جاز) كمسجد القدس، (ولو جعل لغيرها  أو) جعل (فوقه بيتاً وجعل باب المسجد إلى طريق وعزله عن ملكه لا) يكون مسجداً.

 (قوله: وإذا جعل تحته سرداباً) جمعه سراديب، بيت يتخذ تحت الأرض؛ لغرض تبريد الماء وغيره، كذا في الفتح، وشرط في المصباح: أن يكون ضيقاً، نهر، (قوله: أو جعل فوقه بيتاً إلخ) ظاهره أنه لا فرق بين أن يكون البيت للمسجد أو لا، إلا أنه يؤخذ من التعليل أن محل عدم كونه مسجداً فيما إذا لم يكن وقفاً على مصالح المسجد، وبه صرح في الإسعاف فقال: وإذا كان السرداب أو العلو لمصالح المسجد أو كانا وقفا عليه صار مسجداً. اهـ. شرنبلالية".

(کتاب الوقف، مطلب سكن دارا ثم ظهر أنها وقف، ج:4، ص:357،ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404100429

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں