بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں الٹی شلوار پہن کر آنے والے شخص کی تصویر کھینچ کر اس کا مذاق اڑانا


سوال

 اگر ایک شخص مسجد میں الٹی شلوار پہن کر آ جائے اور نماز ادا کر رہا ہو اس کے پیچھے ایک نمازی اس کی تصویر بنا لے، تصویر اس طرح سے بنائی کہ اس شخص کے صرف پاؤں نظر آ رہے ہیں جس سے اس شخص کی شناخت نا ممکن ہے۔ تو  مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ  اب اگر کوئی شخص اس تصویر کو اپنے دوستوں کے درمیان بیٹھ کے سب کو دکھاتا ہے اور سب تصویر دیکھ کر ہنستے ہیں تو اس بارے میں کیا حکم ہے۔ کیا یہ فعل غلط ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ کسی مسلمان کا مذاق اڑانا  یا مجلس میں اس کی کوئی ایسی بات کرنا جس سے لوگ اس پر ہنسیں اور  اس شخص کی دل آزاری ہو یا اس کی تحقیر وتوہین  ہو شرعاً جائز نہیں ہے، بلکہ گناہ ہے،  لہذا اگر کوئی شخص غلطی سے شلوار الٹی پہن کر آگیا ہو  تو اس کی تصویر بناکر لوگوں کو دکھانا اور سب کا اس پر ہنسنا  انتہائی  قبیح اور غیر اخلاقی فعل ہے، تصویر اگرچہ  نچلے ڈھر کی ہو لیکن جن لوگوں کی مجلس میں دکھائی گئی اگر وہ لوگ از خود اس کو جانتے ہوں یا تصویر دکھانے والے نے بتادیا ہو  یا شناخت نہ ہو، لیکن  جس کی تصویر ہو اس کو اس سے تکلیف پہنچ رہی ہو تب بھی یہ جائز نہیں ہے، مزید برآں مسجد عبادت کی جگہ ہے، مسجد میں کسی نمازی کی تصویر کشی بالخصوص مذاق اڑانے کے لیے  موبائل نکلنا اور تصویر سازی کرنا مسجد کے تقدس کی پامالی بھی ہے، لہذا اس پر عمل پر  توبہ واستغفارکرنا  اور آئندہ اس عمل سے اجتناب کرنا لازم ہے۔

قرآن مجید میں ہے:

{ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ} [الحجرات: 11]

ترجمہ:  اے ایمان والو نہ مردوں کو مردوں پر ہنسنا چاہیے،  کیا عجب ہے کہ (جن پر ہنستے ہیں) وہ ان (ہنسنے والوں) سے (خدا کے نزدیک) بہتر ہوں اور نہ عورتوں کو عورتوں پر ہنسنا چاہیے کیا عجب ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ اور نہ ایک دوسرے کو طعنہ دو۔ اور نہ ایک دوسرے کو برے لقب سے پکارو۔ ایمان لانے کے بعد گناہ کا نام لگنا (ہی) برا ہے۔ اور جو (ان حرکتوں سے) باز نہ آویں گے تو وہ ظلم کرنے والے ہیں۔ (از بیان القرآن)

اس آیت کی تفسیر میں مفتی  محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں :

مذکور الصدر آیتوں میں اشخاص و افراد کے باہمی حقوق و آداب معاشرت کا ذکر ہے، ان میں تین چیزوں کی ممانعت فرمائی گئی ہے۔ اول کسی مسلمان کے ساتھ تمسخر و استہزا کرنا، دوسرے کسی پر طعنہ زنی کرنا، تیسرے کسی کو ایسے لقب سے ذکر کرنا جس سے اس کی توہین ہوتی ہو یا وہ اس سے برا مانتا ہو۔ 

پہلی چیز سخریہ یا تمسخر ہے۔ قرطبی نے فرمایا کہ کسی شخص کی تحقیر و توہین کے لئے اس کے کسی عیب کو اس طرح ذکر کرنا جس سے لوگ ہنسنے لگیں اس کو سخریہ، تمسخر، استہزا کہا جاتا ہے اور یہ جیسے زبان سے ہوتا ہے ایسے ہی ہاتھوں پاؤں وغیرہ سے اس کی نقل اتارنے یا اشارہ کرنے سے بھی ہوتا ہے اور اس طرح بھی کہ اس کا کلام سن کر بطور تحقیر کے ہنسی اڑائی جائے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ سخریہ و تمسخر کسی شخص کے سامنے اس کا اسی طرح ذکر کرنا ہے کہ اس سے لوگ ہنس پڑیں اور یہ سب چیزیں بنصِ قرآن حرام ہیں۔

سخریہ کی ممانعت کا قرآن کریم نے اتنا اہتمام فرمایا کہ اس میں مردوں کو الگ مخاطب فرمایا عورتوں کو الگ، مردوں کو لفظ قوم سے تعبیر فرمایا؛ کیوں کہ اصل میں یہ لفظ مردوں ہی کے لیے وضع کیا گیا ہے اگرچہ مجازاً و تو سعاً عورتوں کو اکثر شامل ہوجاتا ہے اور قرآن کریم نے عموماً لفظ قوم مردوں عورتوں دونوں ہی کے لیے استعمال کیا ہے، مگر یہاں لفظ قوم خاص مردوں کے لیے استعمال فرمایا اس کے بالمقابل عورتوں کا ذکر لفظ "نساء" سے فرمایا اور دونوں میں یہ ہدایت فرمائی کہ جو مرد کسی دوسرے مرد کے ساتھ استہزا و تمسخر کرتا ہے اس کو کیا خبر ہے کہ شاید وہ اللہ کے نزدیک استہزا کرنے والے سے بہتر ہو، اسی طرح جو عورت کسی دوسری عورت کے ساتھ استہزا و تمسخر کا معاملہ کرتی ہے اس کو کیا خبر ہے شاید وہی اللہ کے نزدیک اس سے بہتر ہو۔ قرآن میں مردوں کا مردوں کے ساتھ اور عورتوں کا عورتوں کے ساتھ استہزا کرنے اور اس کی حرمت کا ذکر فرمایا؛ حال آں کہ کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ یا کوئی عورت کسی مرد کے ساتھ استہزا کرے تو وہ بھی اس حرمت میں داخل ہے، مگر اس کا ذکر نہ کرنے سے اشارہ اس طرف ہے کہ عورتوں اور مردوں کا اختلاط ہی شرعاً ممنوع اور مذموم ہے جب اختلاط نہیں تو تمسخر کا تحقق ہی نہیں ہوگا۔

حاصل آیت کا یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے بدن یا صورت یا قد و قامت وغیرہ میں کوئی عیب نظر آوے تو کسی کو اس پر ہنسنے یا استہزا کرنے کی جرات نہ کرنا چاہیے؛ کیوں کہ اسے معلوم نہیں کہ شاید وہ اپنے صدق و اخلاص وغیرہ کے سبب اللہ کے نزدیک اس سے بہتر اور افضل ہو۔ اس آیت کو سن کر سلف صالحین کا حال یہ ہوگیا تھا کہ عمرو بن شرجیل نے فرمایا کہ میں اگر کسی شخص کو بکری کے تھنوں سے منہ لگا کر دودھ پیتے دیکھوں اور اس پر مجھے ہنسی آجائے تو میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میں بھی ایسا ہی نہ ہوجاؤں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ میں اگر کسی کتے کے ساتھ بھی استہزا کروں تو مجھے ڈر ہوتا ہے کہ میں خود کتا نہ بنادیا جاؤں(قرطبی)

(از معارف القرآن سورۂ حجرات آیت ۱۱۔)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200942

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں