بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں مدرسہ، مسجد اور ذاتی ضرورت کے لیے سوال کرنے والے کی مدد کرنے کا حکم


سوال

 اگر کوئی مسجد میں کسی مدرسہ یا مسجد کے لیے کچھ سوال کرے تو اس کو دینے کا حکم ہے؟ اسی طرح اگر کوئی شخص مسجد میں کھڑے ہوکر بھیک مانگے تو اس کو دینا جائز ہے؟ 

جواب

1- دینی  ضرورت کے لیے مثلاً مسجد یا مدرسہ یا کسی اور دینی مقصد کے لیے اگر چندہ کی ضرورت ہو تو  چند شرائط کی رعایت کرتے ہوئے مسجد میں چندہ کرنا جائز ہے، وہ شرائط یہ ہیں:

(1) اس سے کسی نمازی کی نماز میں خلل نہ ہو۔

(2) کسی کو تکلیف نہ دی جائے، مثلاً گردن پھلانگنا وغیرہ۔

(3) مسجد میں شور وشغب نہ کیا جائے۔

(4) چندہ زبردستی نہ لیا جائے اور چندہ نہ دینے پر  کسی کو عار نہ دلائی جائے۔

شدید ضرورت کے مختلف مواقع پر نبی کریم ﷺ کی طرف سے تعاون کا اعلان اور بعض مواقع پر (جیسے غزوہ تبوک، اور ایک ضرورت مند قبیلے کے وفد کی آمد کے موقع پر) آپ ﷺ کا خود مسجد میں امداد جمع کرنا منقول ہے۔

2-  اگر کوئی شخص واقعتًا شدید مجبور ہو (جس کی تفصیل آگے آرہی ہے) تو اس کو  اپنی ذات کے لیے بھی مذکورہ بالا شرائط کی رعایت کرتے ہوئے مسجد میں نماز کے بعد اپنی حاجت کے لیے سوال کرلینے کی گنجائش ہے، لیکن  اس صورت میں بھی بہتر یہی ہے کہ شرعی مسجد کی حدود سے باہر سوال کرے۔

 وا ضح رہے کہ جس آدمی کے پاس ایک دن کا کھانا ہو اور ستر ڈھانکنے کےلیے  کپڑا ہو اس کے لیے لوگوں سے مانگنا جائز نہیں ہے، اسی طرح جو آدمی کمانے پر قادر ہو اس  کے لیے بھی سوال کرنا جائز نہیں، البتہ اگر کسی آدمی پر فاقہ ہو یا واقعی کوئی سخت ضرورت پیش آگئی ہو جس کی وجہ سے وہ انتہائی مجبوری کی بنا پر سوال کرے تو اس کی گنجائش ہے، لیکن مانگنے کو عادت اور پیشہ بنالینا بالکل بھی جائز نہیں ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص بلاضرورت مانگتا ہے، قیامت کے دن اس کا یہ مانگنا اس کے چہرے پر زخم بن کر ظاہر ہوگا۔ ایک روایت میں ہے کہ جو اپنا مال بڑھانے کے لیے سوال کرتاہے تو یہ جہنم کے انگارے جمع کررہاہے، اب چاہے تو  کم جمع کرے یا زیادہ۔ اس کے علاوہ بھی وعیدیں وارد ہیں۔

نیز مسجد میں بھیک مانگنے کی صورت میں مسجد کے بہت سے آداب کی خلاف ورزی بھی لازم آتی ہے، مثلاً: مسجد میں شور و شغب ہونا، نمازیوں کی نماز میں خلل واقع ہونا، نمازیوں کی گردنیں پھلانگنا وغیرہ۔اور حدیث میں نمازیوں کی گردنیں پھلانگنے کی ممانعت بھی وارد ہے؛ اس لیے  مسجد میں بھیک مانگنے سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے اور  لوگوں کو چاہیے کہ جس شخص کے بارے میں علم ہو کہ یہ پیشہ ور بھکاری ہے، اسے بھیک نہ دیں، اور ایسے افراد کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، لیکن تحقیر کا جملہ کہنے یا انداز اختیار کرنا جائز نہیں ہوگا۔ تاہم اگر کسی نے چندہ دے دیا تو یہ گناہ اور ناجائز نہیں ہے، بلکہ ایسے شخص کو دینے سے بھی نفلی صدقے کا ثواب حاصل ہوجائے گا۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 164):

"ويكره التخطي للسؤال بكل حال.

(قوله: ويكره التخطي للسؤال إلخ) قال في النهر: والمختار أن السائل إن كان لايمر بين يدي المصلي ولايتخطى الرقاب ولايسأل إلحافاً بل لأمر لا بد منه فلا بأس بالسؤال والإعطاء اهـ ومثله في البزازية. وفيها: ولايجوز الإعطاء إذا لم يكونوا على تلك الصفة المذكورة. قال الإمام أبو نصر العياضي: أرجو أن يغفر الله - تعالى - لمن يخرجهم من المسجد. وعن الإمام خلف بن أيوب: لو كنت قاضياً لم أقبل شهادة من يتصدق عليهم. اهـ. وسيأتي في باب المصرف أنه لايحل أن يسأل شيئاً من له قوت يومه بالفعل أو بالقوة كالصحيح المكتسب ويأثم معطيه إن علم بحالته لإعانته على المحرم". 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201201396

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں