بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں اذان دینے کے بعد گھر میں نماز پڑھانے جانا


سوال

اگر کوئی حافظ اذان ایک مسجد میں دیتا ہو اور نماز دوسری جگہ گھر میں پڑھاتا ہو، تو کیا اس طرح کرنا شرعاً درست ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اذان ہوجانے کے بعد مسجد سے بلا عذر نکلنا مکروہ تحریمی ہے۔نیز گھر میں بلا عذر (چاہے جماعت کے ساتھ ادا کی جائے)نماز پڑھنا مسجد کی حق تلفی اور گناہ ہے۔لہٰذامؤذن کے لیے اذان دینے کے بعد مسجد سے نکل کر کسی گھر میں جا کر نماز پڑھانا درست نہیں۔

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"مسجد قریب موجود ہو اور پھر وہاں کی جماعت بلا عذر ترک کرکے مکان پر کوئی شحص اپنی نماز پڑھ لے تو اگرچہ فرض ادا ہوجاتا ہے، مگر یہ بہت بڑی محرومی ہے، حدیث پاک میں ہے:"مسجد کے قریب رہنے کی والے نماز نہیں ہوتی مگر صرف مسجد میں۔اگر مسجد میں جاکر معلوم ہوا کہ جماعت ہوچکی ہے تو اپنے مکان پر اہل وعیال کو لے کر جماعت کرلی جائے، مسجد کی جماعت کا مستقلاً ترک کرنا گناہ ہے۔"

(فتاویٰ محمودیہ:6/417،مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:

'' عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من سمع المنادي فلم يمنعه من اتباعه، عذر»، قالوا: وما العذر؟، قال: «خوف أو مرض، لم تقبل منه الصلاة التي صلى."

ترجمہ:"حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ جو مؤذن کی آواز سنے اور کسی عذر کے نہ ہونے کے باوجود مسجد کو  نہ جائے (بلکہ گھر میں ہی نماز پڑھ لے)  تو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔صحابہ نے پوچھا: عذر کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: خوف (یعنی دشمن کا) یا مرض۔"

(سنن أبي داود،کتاب الصلوٰۃ، باب التشدید فی ترك الجماعة، ج:1، ص:151، ط: المکتبۃ العصریة بیروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الجماعة سنة مؤكدة. كذا في المتون والخلاصة والمحيط ومحيط السرخسي وفي الغاية قال عامة مشايخنا: إنها واجبة وفي المفيد وتسميتها سنة لوجوبها بالسنة وفي البدائع تجب على الرجال العقلاء البالغين الأحرار القادرين على الصلاة بالجماعة من غير حرج، وإذا فاتته الجماعة لا يجب عليه الطلب في مسجد آخر بلا خلاف بين أصحابنا لكن إن أتى مسجدا آخر ليصلي بهم مع الجماعة فحسن وإن صلى في مسجد حيه فحسن وذكر القدوري أنه يجمع في أهله ويصلي بهم وذكر شمس الأئمة الأولى في زماننا إذا لم يدخل مسجد حيه أن يتبع الجماعات وإن دخله صلى فيه."

(کتاب الصلوٰۃ، الفصل الاول فی الجماعة، ج:1، ص:82 ، ط:رشیدیه)

ردالمحتار میں ہے:

"(قوله من غير حرج) قيد لكونها سنة مؤكدة أو واجبة، فبالحرج يرتفع الإثم ويرخص في تركها ولكنه يفوته الأفضل بدليل «أنه - عليه الصلاة والسلام - قال لابن أم مكتوم الأعمى لما استأذنه في الصلاة في بيته: ما أجد لك رخصة» قال في الفتح: أي تحصل لك فضيلة الجماعة من غير حضورها لا الإيجاب على الأعمى، لأنه - عليه الصلاة والسلام - رخص لعتبان بن مالك في تركها."

(باب الامامة، ج:1، ص:554،ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144509100393

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں