بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کی رقم سے کاروبار کرنے اور نفع حاصل کرنے کا حکم


سوال

 مسجد کے پیسے امام کے پاس امانت ہوتے ہیں،  کیا وہ اس کو اپنے  لئے   قرض لیکر اس سے اپنا کاروبار کر سکتا ہے یا نہیں؟

اگر جائز نہیں ہے تو پھر اگر کسی نے ایسا کرلیا ہو اور اس سے منافع آیا ہو تو اس منافع کو اپنے لئے  خرچ کرسکتا ہے یا اس رقم کا کیا کر ے ؟

جواب

صورت مسئولہ میں مسجد کی رقم امام یا متولی  کے پاس امانت ہوتی ہے،   اسے اپنے استعمال میں لانا، یا اس سے کاروبار کرنا جائز نہیں، لہذا اگر کسی نے مسجد کی رقم لے کر کاروبار کرلیا ہو تو  مذکورہ رقم لوٹانا اس پر شرعا لازم ہوگا، نیز مسجد کی رقم لوٹانے سے قبل تک  جو نفع حاصل ہوا ہو وہ بھی مسجد فنڈ میں جمع کرانا لازم ہوگا۔

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

" مسجد کا پیسہ متولی کے پاس امانت ہوتا ہے، اس میں اور کسی قسم کا تصرف کرنا روزگار وغیرہ میں لگانا جائز نہیں"۔

وفیہ ایضا:

"مسجد کی رقم متولی کے پاس امانت ہے، کسی کو بیوپار کے لیے  دینے کا اس کو حق نہیں، ہر گز کسی کو نہ دی جائے"۔

(باب احکام المساجد، ۱۵/ ۸۰، ط: فاروقیہ)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" وأما حكمها فوجوب الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده ووجوب أدائه عند طلب مالكه، كذا في الشمني.

الوديعة لاتودع ولاتعار ولاتؤاجر ولاترهن، وإن فعل شيئًا منها ضمن، كذا في البحر الرائق."

(كتاب الوديعة، الباب الأول في تفسير الإيداع الوديعة وركنها وشرائطها وحكمها، ٤ / ٣٣٨، ط: دار الفكر)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"وفي القنية ولا يجوز للقيم شراء شيء من مال المسجد لنفسه ولا البيع له وإن كان فيه منفعة ظاهرة للمسجد. اهـ.... أن القيم ليس له إقراض مال المسجد قال في جامع الفصولين ليس للمتولي إيداع مال الوقف والمسجد إلا ممن في عياله ولا إقراضه فلو أقرضه ضمن وكذا المستقرض وذكر أن القيم لو أقرض مال المسجد ليأخذه عند الحاجة وهو أحرز من إمساكه فلا بأس به وفي العدة يسع المتولي إقراض ما فضل من غلة الوقف لو أحرز. اهـ. "

( كتاب الوقف، تصرفات الناظر في الوقف، ٥ / ٢٥٩، ط: دار الكتاب الإسلامي)

مجلة الأحكام العدلية میں ہے:

"(المادة ٧٩٨) : منافع الوديعة لصاحبها. يعني أن المنافع المتولدة من الوديعة تكون لصاحبها ; لأن المنافع المذكورة نماء ملك صاحبها يعني المودع. فلذلك نتاج حيوان الأمانة ولبنه وصوفه عائد لصاحبه."

( الباب الثاني في الوديعة، الفصل الثاني: في أحكام الوديعة وضمانها، ص: ١٥٣، ط: نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100664

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں