بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے خادم، مؤذن یا مالی کو زکاۃ دینا


سوال

مسجد کے اندر مؤذن کو ،مالی کو یا صفائی والے کو، گیٹ کھولنے  اور بند کرنے والے کو  زکاۃ دے سکتے ہیں؟

جواب

         اگر کوئی مسلمان شخص غریب اور ضروت مند ہے  اور اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   (یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) کے برابر  رقم نہیں ہے ، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت و استعمال سے زائد  سامان ہے کہ جس کی مالیت نصاب کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  وہ سید  ، ہاشمی ہے تو اس شخص کے لیے زکاۃ لینا جائز ہے، اور اس کو زکاۃ دینے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی،  اگر کسی کے پاس  کچھ زیور اور ضرورت سے زائد  کچھ نقدی ہو  یا استعمال سے زائد کچھ سامان ہو اور ان اشیاء کی  مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر بنتی ہے تو اس کو زکاۃ دینا جائز نہیں ہے، اگر اس سے کم قیمت بنتی ہے اس کو زکاۃ دینا جائز ہوگا۔

زکاۃ دینے والے کا  غالب گمان یہ ہو کہ جسے زکاۃ دی جارہی ہے وہ مستحق ہے اور اس کا دل مطمئن ہو تو اس کو زکاۃ دینا جائز ہے، خواہ یہ اطمینان مستحق کی ظاہری حالت دیکھ کر ہو رہا ہو یا مستحق کے خود بتانے سے یا اس کے زکاۃ کا سوال کرنے سے غالب گمان حاصل ہوجائے، مزید تحقیق وتفتیش کی ضرورت نہیں ہے۔

مذکورہ تفصیل کی روشنی میں مسجد کے مؤذن، مالی، صفائی کرنے والا، گیٹ کھولنے اور بند کرنے والا اگر غالب گمان کے مطابق مستحقِ زکاۃ ہو تو اسے زکوۃ دے سکتے ہیں۔ البتہ زکاۃ کی رقم ان کی تنخواہ میں دینے سے زکاۃ ادا نہیں ہوگی، مستحق ہونے کی صورت میں تنخواہ کے علاوہ دی جاسکتی ہے۔

'' فتاوی عالمگیری'' میں ہے:

" لايجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصاباً أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضاً للتجارة أو لغير التجارة فاضلاً عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي، والشرط أن يكون فاضلاً عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولايشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان، كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحاً مكتسباً، كذا في الزاهدي. .......ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب، كذا في الهداية ۔ ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم، كذا في السراج الوهاج. هذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة، فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم، كذا في الكافي". (1/189، باب المصرف، کتاب الزکاة، ط: رشیدیه) فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144109200941

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں