بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے سفیر کے لیے اجرت مقرر کرنا جائز ہے


سوال

مسجد انتظامیہ کا یومیہ اُجرت پر سفیر  (چندہ وصول کرنے والا ) رکھنا کیسا ہے ؟ اور حاصل شدہ رقم جو بغیر کسی تمیز کے مسجد کے نام پر بطورِ چندہ دی گئی ہو، مسجد کے اخراجات میں خرچ کرنا کیسا ہے؟

جواب

چندہ  جمع کرنے  والے  سفیر  کے لیے تنخواہ مقرر کرنا جائز ہے،  خواہ ماہانہ بنیاد پر تنخواہ طے کی جائے یا روزانہ کی بنیاد پر۔لیکن اگر اس سفیر کی ماہانہ تنخواہ مقرر نہیں ہے، بلکہ یہ مقرر کیا ہے کہ جتنا چندہ جمع کرے گا اس میں سے مخصوص فیصد کمیشن ملے گا، یہ طریقہ جائز نہیں ہے۔ 

مسجد کے چندے  کی رقم مسجد کے اخراجات میں استعمال کرنا درست ہے، البتہ مسجد کے چندے میں زکات اور دیگر واجب صدقات (فدیہ، کفارہ، صدقہ فطر، نذر) کے پیسے دینا اور لینا درست نہیں ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ومنها: أن تكون الأجرة معلومةً. ومنها: أن لاتكون الأجرة منفعةً هي من جنس المعقود عليه كإجارة السكنى بالسكنى والخدمة بالخدمة".

( کتاب الإجارة، الباب الأول: تفسير الإجارة وركنها وألفاظها وشرائطها،4/ 411ط: رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو) (دفع غزلاً لآخر لينسجه له بنصفه) أي بنصف الغزل (أو استأجر بغلاً ليحمل طعامه ببعضه أو ثورًا ليطحن بره ببعض دقيقه) فسدت في الكل؛ لأنه استأجره بجزء من عمله، والأصل في ذلك نهيه صلى الله عليه وسلم عن قفيز الطحان".

( کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ،6/ 56ط: سعید)

 فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144212201777

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں