بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے جنریٹر کے لیے کیے گئے چندہ سے وضو خانہ بنانے کا حکم


سوال

ہماری مسجد میں ایک مسئلہ ہوگیا ہے ، مسجد میں ایک عدد جنریٹر کی اشد ضرورت تھی، اس کے لیے ہر نماز کے بعد اعلان بھی ہوا کہ مسجد میں جنریٹر کی ضرورت ہے ، جب جنریٹر کے پیسے دو سے ڈھائی لاکھ جمع ہوگئے تو کمیٹی والوں نے وہ پیسے جنریٹر کی مد میں لگانے کے بجائے ان پیسوں سے وضو خانہ اور استنجاء خانہ بنوادیا تھا، اس کے بعد سے ہنگامہ کھڑا ہوگیا کہ کمیٹی والے چور ہیں جنریٹر کے پیسے کھاگئے ، پوچھنا یہ تھا کہ ایک مخصوص کام کے لیے جمع کیے گئے پیسوں کو دوسرے کاموں میں خرچ کر سکتے ہیں یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ جن کاموں کے لیے  چندہ کیا جائےتو  وہ رقم ان ہی کاموں میں صرف کرنا شرعاً ضروری ہے  ،دوسرے کاموں میں چندہ دہندہ گان  کی اجازت کے بغیرخرچ کرنا درست نہیں ۔

لہذا صورت مسئولہ میں  جو چندہ   مسجد کے جنریٹر کے لیے کیا گیا اسے چندہ دینے والوں کی اجازت کے بغیر مسجد کےوضو خانہ واستنجاء خانہ بنانے  میں   خرچ کرنا شرعا جائز نہیں تھا ؛ اس لیے  کہ مسجد  کمیٹی کی حیثیت محض امین اور وکیل کی ہے اور وکیل کے لیے معطی (دینے والے) کی  تصریح کے خلاف خرچ کرنے کا حق نہیں ہے ،اب چوں کہ چندہ کی رقم دوسری جگہ خرچ کردیا ہے تو اتنی رقم کا ضمان مسجد کمیٹی پر لازم ہوگا  ۔البتہ اگر چندہ دینے والے حضرات اس جگہ پر خرچ کرنے پر رضامند ہوجائے تو اس صورت میں اس کا ضمان کمیٹی والوں پر لازم نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"وهنا الوكيل إنما يستفيد التصرف من الموكل وقد أمره بالدفع إلى فلان فلا يملك الدفع إلى غيره كما لو أوصى لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلى غيره فتأمل."

(کتاب الزکات،ج:2،ص:269،سعید)

فتاوی تاتار خانیہ میں ہے :

"سئل أبو نصر عن رجل جمع مال الناس علي أان ينفقه في بناء المسجد فربما يقع في يده من تلك الدراهم فأنفقها في حوائجه ثم يرد بدلها في نفقة المسجد من ماله أيسع له ذلك ؟

قال:لا يسعه أن يستعمل من ذلك في حاجة نفسه فان عرف مالكه رد عليه وسأله تجديد الإذن فيه وإن لم يعرف إستأذن الحاكم فيما أستعمل وضمن."

(کتاب الوقف،ج:8،ص:177،مکتبہ زکریا دیوبند)

امدادالفتاوی میں ہے :

"سوال (۶۹۵):چندہ کے احکام وقف کے ہونگے یا مہتمم  تنخواہ  مقررہ سے زائد  بطور انعام وغیرہ کے دے سکتا ہے یا نہیں ؟

جواب:یہ وقف نہیں ،معطیین کا مملوک ہے اگر اہل چندہ  صراحۃ یا دلالۃ  انعام دینے پر  رضامند ہوں درست ہے ورنہ درست نہیں ۔"

(کتاب لوقف ،ج:2،ص:560،ط:دارالعلوم کراچی )

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال: ایک لاورث شخص مرگیا، جس کے کفن کے لیے چندہ کیاگیا ہے، بعد کفن دفن کچھ چندہ بچ گیا تو اس کو مسجد میں خرچ کرسکتے ہیں یا نہیں؟

الجواب حامداً و مصلياً:

جن لوگوں نے چندہ دیا ہے ان کی اجازت سے مسجد میں بھی خرچ کرسکتے ہیں۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔"

(کتاب الوقف، باب احکام المساجد،ج:15،ص:167، ط: ادارۃ الفاروق)

وفیہ ایضاً:

"جس جگہ  خرچ کرنے کے لیے وہ  روپیہ  دیا ہے ،اسی جگہ خرچ کرنا لازم ہے ،اگر دوسری جگہ  خرچ کردیا تو ضمان لازم ہوگا ؛اس لیے متولی امین اور وکیل ہے ،معطی کی تصریح کے خلاف خرچ کرنے کا اس کو حق نہیں ۔"

(کتاب الوقف،باب ما یتعلق بالمدارس،ج:15،ص:474،فاروقیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501102398

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں