بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے بیسمنٹ میں مسجد سے باہر مدرسہ بنانا


سوال

ایک مسجد کا چھ صفوں کاصحن بنانا ہے جگہ کی تنگی کی وجہ سے اس کے نیچے بیسمینٹ بھی بنانا ہے جوکہ خارج المسجد ہوگا اور مدرسہ کے لیئے استعمال ہوگا، جیسا کہ دارالعلوم کراچی یا جامع مسجد اختر کراچی یا بیت السلام مسجد تلہ گنگ کا مسجد کے نیچے بیسمینٹ بنے ہیں ،کیا اس طرح بیسمنٹ مدرسہ کی نیت سے اور اوپر صحن مسجد کی نیت سے بنانا شرعاً جائز ہے اگر اس کی کچھ شرائط ہیں تو وہ بھی بتا دیجیئے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر اس طرح مسجد کاصحن بناسکتے ہیں تو اس کی تعمیر کے وقت جو پلر مسجد کے صحن کا لنٹر ڈالنے کے لیئے نیچے بیسمنٹ سے اٹھانے ہیں ان پر پیسہ مسجد کی مد سے لگا سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ مسجد میں  جو جگہ نماز پڑھنے کے لیے مختص  کی جائے وہ  ہمیشہ کے لیے "تحت الثریٰ"  (زمین کی تہہ) سے اوپر آسمان تک سب مسجد کے حکم میں ہو تی ہے، اس میں کوئی اور چیز تعمیر نہیں کی جاسکتی، البتہ اگر مسجد  کی تعمیر  سے  پہلے نیچے والے حصے میں کوئی ایسی چیز بنائی جو مسجد کے مصالح کے لیے ہو تو اس کی گنجائش ہے اور اگر وہ مسجد کے مصالح میں داخل نہ ہو تو  اس کے بنانے سے اوپر والی جگہ شرعی مسجد نہیں بنے گی، اور جب مسجد کی  تعمیر مکمل  ہوجائے  تو  پھر اس کے اوپر یانیچے کوئی اور  چیز بنانا جائز نہیں ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقف کی نیت  مسجد کے لیے جگہ  وقف کرنے سے پہلے ہی تھی کہ بيسمينٹ ميں  مستقل مدرسہ ہوگا، اور اس کے اوپر مسجد ہوگی تو یہ جائز تو ہے، لیکن اس صورت میں اوپر والی جگہ شرعی مسجد نہیں کہلائے گی۔

اور اگر زمین مسجد ہی کے لیے  وقف کردی ہو اور وقف کرنے کے بعد  تعمیر کے وقت یہ نیت کی کہ نیچے  مستقل مدرسہ ہوگا تو واقف کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں ہے،  اس لیے کہ جو جگہ حد بندی كر كے مسجد کے لیے وقف کردی ہو وہاں کسی اور چیز کی تعمیر کرنا جائز نہیں ہوتا۔ 

واضح ہو کہ مدرسہ ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے اور  اس کی جہت الگ ہے،  لہٰذا مسجد کے تہہ خانہ میں مستقل مدرسہ  بنانا درست نہیں ہے،  البتہ اس کو مسجد ہی باقی ركهے اور جب تك مدرسہ كا انتظام نہ هو عارضی طور پر  اس میں بچوں کو قرآن اور دین کی بنیادی تعلیم دی جائے اور اس میں مسجد کے تقدس و آداب کا مکمل خیال رکھا جائے تو یہ جائز ہے۔

"البحر الرائق " میں ہے:

"حاصله: أن شرط كونه مسجداً أن يكون سفله وعلوه مسجداً؛ لينقطع حق العبد عنه؛ لقوله وتعالى: ﴿وَاَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّٰهِ﴾ [الجن: 18] بخلاف ما إذا كان السرداب أو العلو موقوفاً لمصالح المسجد، فإنه يجوز؛ إذ لا ملك فيه لأحد، بل هو من تتميم مصالح المسجد، فهو كسرداب مسجد بيت المقدس، هذا هو ظاهر المذهب، وهناك روايات ضعيفة مذكورة في الهداية، وبما ذكرناه علم أنه لو بنى بيتاً على سطح المسجد لسكنى الإمام، فإنه لا يضر في كونه مسجداً؛ لأنه من المصالح، فإن قلت: لو جعل مسجداً ثم أراد أن يبني فوقه بيتاً للإمام أو غيره، هل له ذلك؟ قلت: قال في التتارخانية: إذا بنى مسجداً، وبنى غرفةً وهو في يده، فله ذلك، وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس، ثم جاء بعد ذلك يبني، لا يتركه. وفي جامع الفتوى: إذا قال: عنيت ذلك، فإنه لا يصدق". اهـ

(5/ 271،  کتاب الوقف، فصل فی احکام المسجد، ط: دارالکتاب الاسلامی، بیروت)

"فتاوی شامی" میں ہے:٤

"(وإذا جعل تحته سرداباً لمصالحه) أي المسجد (جاز) كمسجد القدس، (ولو جعل لغيرها  أو) جعل (فوقه بيتاً وجعل باب المسجد إلى طريق وعزله عن ملكه لا) يكون مسجداً.

 (قوله: وإذا جعل تحته سرداباً) جمعه سراديب، بيت يتخذ تحت الأرض؛ لغرض تبريد الماء وغيره، كذا في الفتح، وشرط في المصباح: أن يكون ضيقاً، نهر، (قوله: أو جعل فوقه بيتاً إلخ) ظاهره أنه لا فرق بين أن يكون البيت للمسجد أو لا، إلا أنه يؤخذ من التعليل أن محل عدم كونه مسجداً فيما إذا لم يكن وقفاً على مصالح المسجد، وبه صرح في الإسعاف فقال: وإذا كان السرداب أو العلو لمصالح المسجد أو كانا وقفا عليه صار مسجداً. اهـ. شرنبلالية."

(4/ 357، کتاب الوقف، ط: سعید)

وفیہ أیضاً:

"لو بنى فوقه بيتاً للإمام لا يضر؛ لأنه من المصالح، أما لو تمت المسجدية ثم أراد البناء منع، ولو قال: عنيت ذلك لم يصدق، تتارخانية".

(4/ 358، کتاب الوقف، فرع، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144311100503

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں